Monday, August 2, 2021

کارواں


محترم احباب بزم محفل مشاعرہ 
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

قافلہ بنتا ہے سجاتا ہے اور پھر لٹ جاتا ہے قافلہ بنانے والا ہر ایک کی منت سماجت کرکے اسے سجاتا اور پھر جب قافلے کی رونق بڑھ جاتی ہے تو لٹیروں کی نظر اس پر پڑتی اور قافلہ لوٹ لیا جاتا ہے۔
پہلے زمانے سے ہی ہمیں گروہ میں رہ کر سفر کرنے کا حکم ہوا اور یہ تاکید کی گئی کہ عورتوں نے بغیر محرم کے سفر نہیں کرنا چاہیے مگر افسوس اب تو حکومت نہ یہ فیصلہ لیا ہے کہ عورتیں بغیر محرم کے اکیلے سفر حج کے لیے جا سکتی ہے۔
پہلے زمانے میں امیر کارواں ایک ہوا کرتا ہے اب امیروں تعداد بڑھ جانے کے سبب ہمیں منزل ہی نہیں مل رہی
ہمیں پھر سے ایک بہترین کارواں بنانے کی ضرورت ہے اور عنقریب وہ وقت آجائے گا جب ہم ایک امیر کارواں کے ساتھ رواں دواں ہوں گے وہ دور ہوگا محمد بن عبداللہ یعنی امام مہدی کا ان کی قیادت میں ہمارا قافلہ چلے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام اور امام مہدی مل کر دجال کو ختم کرینگے اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔
ابھی تو ہمارا معاملہ ایسا ہے کہ
*زندگی یوں ہوئی بسر تنہا*
*قافلہ ساتھ اور سفر تنہا*
خیر چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آج کے مقابلے کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔

      *انعام خصوصی* 
نگاہ بلند سخن دلنواز جہاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
*جویریہ جودت صاحبہ*

شریعت پر کبھی بھی آنچ آ جائے نہیں ممکن
علم حق کا لئے جو قافلہ  سالار زندہ ہے
*ایم کے وسیم راجا*

 رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
*بشری جبین صاحبہ*
درجہ بالا شعر فھیم خاتون مسرت صاحبہ نے بھی ارسال کیا ہے

اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نہیں کدھر جارہے ہیں ہم
*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب*

درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں
*خان گوہر نایاب*

میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پہ وہ ہوا کی لکیر تھی
*عرشیہ عندالواجد صاحبہ*

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا 
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
*فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں 
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

*مرزا حامد بیگ صاحب*

              *انعام اول*

اندھیری شب کا سفر تھا ہوا تھی صحرا تھا۔۔
دیے کو میں نے بچایا تھا اور دیے نے مجھے۔۔!
*نقوی شادزہرا صاحبہ*
ان کے قدموں سے لپٹ کر مجھے مر جانے دے 
 بےٹھکانہ ہوں ازل سے مجھے گھر جانے دے 

سوئے بطحا لیے جاتی ہے مجھے ہوائے بطحا 
 بوئے  دنیا مجھے گمراہ نہ  کر  جانے  دے
*عبدالستار سر* 


قافلے خود سنبھل سنبھل کے بڑھے
جب کوئی میر کارواں نہ رہا

باقر مہدی
*بشری جبین صاحبہ*

یقیناً رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا
وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*

سفر ہو شاہ کا یا قافلہ فقیروں کا
شجر مزاج سمجھتے ہیں راہگیروں کا

*محمد عقیل صاحب*

نہ کوئی سمت نہ منزل سو قابلہ کیسا
رواں ہے بھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی
*انصاری شکیب الحسن سر*



بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں کارواں کتنے
جلا سکو تو جلاؤ صداقتوں کے چراغ

*محمد اشرف الدین سر*

مسافر کے راستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
میرے پاؤں شعلوں پہ چلتے رہے

*سید وقار احمد سر* 
          *انعام دوم*
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے

*محمد عقیل صاحب*

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

*محترمہ نزہت صاحبہ*

‏وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا.!
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھی.!
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*

اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی 
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
*سید وقار احمد سر*
 
چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے 
بہار آکے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

*فریسہ جبین باجی*

اہل خرد صدائے جرس کے ہیں منتظر 
دیوانے منزلوں سے بھی آگئے نکل گئے 
*مرزا حامد بیگ صاحب*

        *انعام سوم*
دیکھنے آؤ روانی میری
کوئی دریا ہے جوانی میری

چند قبریں ہیں مرے پہلو میں
ایک صحرا ہے نشانی میری


*عبدالرزاق حسین صاحب*

حیات لے کے چلو،کائنات لے کے چلو ۔

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو۔۔
*ڈاکٹر محفوظ اللہ قادری صاحب*

پندار  صحرائی میں ہے جکڑا ہوا
ناقہ موچ ہوایہ قافلہ ذرات کا 

تو اپنی نرم شعاعوں کا قافلہ لےجا
کچھ اور چاٹ لے صحرائے گمراہی کا 
 
صحرائے خرد میں حیران ہیں کل قافلہ
جائے راہرواں منہ موڑ لیتا ہے سورج بھی
*مرجان صاحب*

سفرجب تنہاکرناہوتوپھر سوچانہیں کرتے
کسی کاساتھ نہ بھی ہو قدم روکانہیں کرتے
اگرصحرامیں آئےہوتو ساحرخودہی آئےہو
کبھی ویرانے توچل کے شہر آیا نہیں کرتے
خدا حافظ 
خان محمد یاسر