Sunday, February 19, 2023
چاندنی رات اور تنہائی
Saturday, February 4, 2023
ذمہداری
اے زندگی تیری چالوں نے ہمیں جینا سکھا دیا
ورنہ دوغلے لوگوں میں کیسے گزارہ یہاں ہوتا
میں نے سبھی ریاضتوں کو رایگاں جانے دیا
کرتی گلا جو میرا کوئی دکھ تم پہ عیاں ہوتا
ہمیں تو لفظوں کے تیروں سے چھلنی کیا گیا
ہم جو کچھ کہتے تو تم سے برداشت کہاں ہوتا
ہم نے زندگی کے ہر رنگ سے تم کو آگاہ رکھا
آج سوچتے ہیں کوئی راز تو تم سے پنہاں ہوتا
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
احباب بزم محفل مشاعرہ
ایک تصویر اور اس کے کئی مطلب کبھی انسان اس تصویر خود کو ڈال کر دیکھتا ہے اور کبھی اپنے عدو کو بہرحال انسان اپنے بارے میں سی سوچتا ہے۔ آج جس تصویر کا نتیجہ پیش کیا جارہا ہے وہ آج کے دور کی سچائی ہے ہم اتنے خود پسند ہوگئے کہ ہمیں اپنے علاوہ اور دوسرا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔
*ہم نے سات چیزوں پر ایمان لائے اللہ پر فرشتوں پر کتابوں پر اور رسولوں اور آخرت کے دن پر اور اچھی بری تقدیر پر کہ وہ اللہ کی طرف سے ہے اور دوبارہ اٹھائے جانے پر۔*
ہم سب باتوں کو قولا اور عملا مان رہے ہیں مگر تقدیر کا گلا ہم سے نہیں جاتا۔
*ہزاروں نا مکمل حسرتوں کے بوجھ تلے*
*یہ جو دل دھڑکتا ہے ، کمال کرتا ہے....!!*
یہی شکر گزاری ہے وسیم راجا صاحب آپ کے اس شعر میں بہت دم ہے۔ اس طرح کا حوصلہ ہم سب میں ہونا چاہیے اکثر خواتین کو میں نے سنا ہے وہ اپنی تقدیر کا گلا کرتی ہے کہ ایسا ہوا نہیں وہ ملا نہیں یہ کیا نہیں، ایک آدمی زندگی کی آخری سانس تک اہل خاندان کی ضرورتیں پوری کرنے میں مصروف رہتا ہے اس کی ساری زندگی دوسروں کے لیے خوشیاں خریدنے میں ختم ہو جاتی ہے اور وہ خوش بھی اسی میں ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے سب خوش ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے اس کی اس کامیابی میں اس کی شریک حیات کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے وہ جو چاہتی ہے اس سے کروا کر رہتی ہے اسی لیے کہتے ہیں نا کہ ایک کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ ویسے بھی عورت سے مراد ماں بیوی بیٹی اور بہن ہے خاندان تو ان کی ہی بدولت بنتا اور بکھرتا ہے۔اسی لیے تو علامہ اقبال نے کہا تھا کہ
*وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ*
*اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں*
یہ ہمارے سماج کی بہت بڑی غلط فہمی ہے کہ لڑکوں کی پیدائش خوشی کا باعث سمجھتے ہیں بلکہ صرف لڑکوں کی پیدائش کے دن ہی سب خوشیاں مناتے ہیں اور باقی تمام زندگی لڑکا عورتوں کی خوشیوں کے لیے مرمر کرتا ہے۔ بھاگم دوڑ کرتا ہے۔ آپ اگر غور کریں تو اکثر مرد آج بھی سال میں ایک مرتبہ ہی اپنے لیے کپڑے سلاتا اگر چپل یا جوتا پھٹ جائے تو اس کی مرمت کرکے پہنتا ہے گھر کی اسے کوئی خواہش نہیں ہوتی امیر ہوں دکھانے کی کوئی چاہ نہیں ہوتی اس کی کوئی حسرت نہیں ہوتی سوائے ایک بہترین شریک حیات کے اور وہ اسی شریک حیات کی حسرتوں کو پورا کرنے کے لیے اسے خوش رکھنے کے لیے اس طرف ہر حال میں گھر کو گھسیٹ کر چلتا رہتا۔
بہت ہوگی ادھر ادھر کی بس ایک آخری بات عورتوں کو بھی چاہیے کہ اپنے خاوند کا خیال رکھے کیونکہ وہ آپ کا مجازی خدا ہے۔ ویسے ہمارے گروپ میں ایسا کوئی نہیں جو اس نصیحت کا حقدار ہو پھر بھی بولنے میں کیا جاتا ہے کبھی کبھی کوئی بات ہوجاتی جو برداشت کے باہر ہوجاتی ہے۔ آپ تمام با سمجھ اور با سمجھ احباب کا کام نا سمجھ افراد کو سمجھ دینے کا ہوتا ہے آج کل کے معاشرے میں چھوٹی چھوٹی باتوں پر نااتفاقی ہوکر بڑے بڑے جرموں کے مرتکب ہو رہے ہیں لوگ انھیں سمجھانا ہماری ذمہ داری ہے ہماری ذمہداری ہے کہ ہم اپنے گھروں کے علاوہ دوسروں کے گھروں کو بھی ٹوٹنے سے بچائے انھیں show off سے روکے انھیں بتائے کہ مقدر میں جو ہے مل کر رہتا ہے اور مقدر کی روزی بڑھانا ہے تو شکر کے کلمات کو بولو اور اپنی روزی بڑھاؤ۔
*خود سے لڑتا ہوں ، بگڑتا ہوں ، منا لیتا ہوں*
*میں نے تنہائی کو ، ایک کھیل بنا رکھا ہے*
مراسلہ گوہر نایاب فضل اللہ خان
👑👑 *آج کل پہلا انعام* 👑👑
یہ ذمہ داریوں کو نبھانا بھی ایک ذمہ داری ہے
چلتی رہتی ہے ساتھ ساتھ گور تک خوشی
*محترمہ مسرت طاہر عرف خوشی*
تندی باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
*فرحت جبین باجی*
اک دن اپنا آپ سمیٹا ، اس کوچے سے کوچ کیا
میں نے اپنی قیمت جانی اپنی ہی ارزانی سے
*وسیم راجا صاحب*
🌹🌹 *دوسرا انعام حاصل کیا ہے* 🌹🌹
غم زندگی ،غم بندگی ،غم دو جہاں غم کارواں
میری ہر نظر تیری منتظر تیری ہر نظر میرا امتحاں
آہستہ چل اۓ زندگی کئی قرض چکانا باقی ہیں
کچھ درد مٹانا باقی ہیں کچھ فرض نبھانا باقی ہیں
*ثنا ثروت صاحبہ*
گھر چھوڑنے کا جب بھی ارادہ کیا محسن
قدموں سے اسکی یاد کی خوشبو لپٹ گئ
محسن نقوی صاحب
*محترم سرتاج شاکر سر*
دنیا بہت خراب ہے جائے گزر نہیں
بستر اٹھاؤ رہنے کے قابل یہ گھر نہیں
*سید وقار احمد سر* 🍁
💐💐 *انعام سوم* 💐💐
اے دوست اب سہاروں کی عادت نہیں رہی
تیری تو کیا کسی کی ضرورت نہیں رہی !
اب کے ہماری جنگ ہے خود اپنے ہی آپ سے
یعنی کہ جیت ہار کی وُقعت نہیں رہی !
عادت اکیلے پَن کی جو پہلے عذاب تھی
اب لُطف بن گئی ہے اذیت نہیں رہی !
*گوہر نایاب خان*
مسافر ہیں ہم بھی مسافر ہو تم بھی
کسی موڑ پر پھر ملاقات ہو گی
*مرسلہ عبداللہ خان ممبئی*
زندگی تو اپنے ہی قدموں پہ اچھی لگتی ہے صاحب
اُوروں کے سہارے تو جنازے اٹھا کرتے ہیں
*محمد اشرف الدین سر لکی*
در و دیوار پہ حسرت سے نظر کرتے ہیں
خوش رہو اہل وطن ہم تو سفر کرتے ہیں
*ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب*
یہ شہر سارا تو روشنی میں کھلا پڑا ہے سو کیا لکھوں میں
وہ دور جنگل کی جھونپڑی میں جو اک دیا ہے وہ شاعری ہے