*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
مرنے والوں کو روتے ہو کیا
بے بسی دیکھو جینے کی
مراسلہ
*محترمہ قاضی فردوس فاطمہ صاحبہ*
یہ شعر پڑھ کر وہ قصہ پھر یاد آگیا ایک غریب مزدور کچھ دن بیمار رہا اس دوران گھر میں فاقے ہی فاقے چلے۔ پھر غریب مر گیا گھر میں سے آہ و بکا کی آوازیں سن کر پڑوسی دوڑے چلے آئے دیکھ مزدور مرگیا تجہیز و تدفین کے بعد پڑوسیوں نے مزدور کے گھر کھانا پہنچایا بچوں نے خوب سیر ہوکر کھایا کیونکہ اتنا کھانا ایک ہفتے بعد کھانے کے لیے ملا تھا وہ کھانا دو تین دن کافی ہوا۔
مزدور کی بیوی ابھی عدت میں تھی اور اس کے گود میں ایک دودھ پیتا بچہ بھی تھا۔ ماں کے سینے میں دودھ سوکھ چکا تھا اور اس ماں نے بھی دکھ میں کھانا نہیں کھایا تھا تو دودھ پیتا بچہ بھی مرگیا۔
دوسرے دن کھانا پڑوسیوں نے لا کردیا غریب کے بچوں نے سیر ہوکر کھایا۔ دو چار دن گزرے چھوٹے سے بڑا والا بچی بیمار ہوئی تو بچے نے پوچھا ماں باجی کب مرے گی تاکہ پڑوسی کھانا لا کر دیں۔
ہے نا شرم کی بات؟
میں نے پہلے بھی تحریر کیا تھا کہ گجرات کے فساد میں ہندوؤں نے قتل عام نہیں کیا تھا بلکہ وہ لاچار غریب لوگوں کو ورغلایا گیا کہ یہ مسلمان تمہارے بستی میں کھانا لا کر پھینکتے ہیں اور تمہیں نہیں دیتے اس بھوک کا تم لوگ ان سے انتقام لو۔
ہمارے اسلاف کیسے تھے دیکھئے ذرا مدینے میں ایک یہودی اپنا مکان بیچ رہا تھا۔ خریدار نے قیمت معلوم کی تو پتہ چلا قیمت کچھ زیادہ بتا رہا ہے۔ خریدار نے اس سے پوچھا یہاں تو مکان کی قیمت اتنی ہے تم زیادہ کیوں بتا رہے ہو۔ اس نے جواب دیا میرا پڑوسی صحابی رسول ہے کبھی گھر میں فاقہ ہونے نہیں دیتا۔
ایک مرتبہ حضرت عمر بن عبدالعزیز صحرا سے گزر رہے تھے دیکھا ایک چرواہا بکریاں چرا رہا تھا۔ اتنے میں ایک کتا آیا اور اس کے پاس بیٹھ گیا اس چرواہے نے اپنی پوٹلی میں سے ایک روٹی نکالی اور کتے کو دی کتا نے روٹی کھائی اور پھر للچائی ہوئی نظروں سے چرواہے کو دیکھنے لگا پھر اس نے تیسری روٹی بھی اس کے سامنے ڈال دی کتا سیر ہوا اور وہاں سے چلا گیا۔
عمر بن عبدالعزیز نے اس چرواہے سے پوچھا تمہاری پوٹلی میں کتنی روٹیاں تھیں۔ اس نے جواب دیا تین تو عمر بن عبدالعزیز نے پوچھا تم کیا کھاؤں گے۔ اس نے جواب دیا حضور یہاں صحرا میں کتے نہیں ہوتے شاہد یہ کہیں سے آگیا تھا بھوکا تھا ابھی اس کو روٹی ضرورت تھی میں شام میں اپنے گھر جا کر کھا لوں گا۔
عمر بن عبدالعزیز نے پوچھا بکریاں کس کی ہے؟ کہا مالک کی۔ اس غلام چرواہے کو خریدا اور تمام بکریاں خرید لی اور اس چرواہے کو دے دی اور اس چرواہے نے ضرورت مندوں میں ان بکریوں کو تقسیم کر دیا۔
میں اور آپ ہوتے تو جپ جپ کر رکھتے۔
اپنے گروپ میں کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی جو اپنی تنخواہ میں سے خرچ کرتے تو ہیں قرض لے کر بھی خرچ کرتے ہیں غریبوں پر اللہ ان کے اور ان کے طفیل میں ہمارے رزق میں برکت عطا کرے۔
عزت والا مانگتا نہیں بھوک سے مر جاتا ہے ہمارے نبی نے بتایا گھر میں جو بھی بناؤ پڑوسی اس سالن میں ایک کٹوری پانی ملا کر دے دو نہیں معلوم اس کے گھر کچھ ہو کہ نہ ہو۔
ہمارے نبی کے گھر چولہا ایک ایک مہینہ نہیں جلتا تھا
حضرت نعما ن بن بشیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو! کیا تمہیں خورد ونوش کی ہر وہ چیز میسر نہیں ہے جس کی تم خواہش رکھتے ہو؟ حالانکہ میں نے توتمہارے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حالت میں دیکھا کہ ان کے پاس تو اتنی ردی کھجوریں بھی نہیں ہوتی تھیں جن سے پیٹ بھر سکیں۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین (میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ہم لوگ یعنی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر والے وہ ہیں کہ ایک ایک مہینہ تک چولھے میں آگ نہ جلتی تھی بلکہ ہمارا گزارا صرف پانی اور کھجوروں سے ہوتا تھا۔
مہمانوں نے کھجوریں کھائیں اور پانی پیا۔ پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ پکی ہوئی کھجوریں ، ٹھنڈا پانی اور ٹھنڈا سایہ وہ نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قیامت کے دن تم سے پوچھا جائے گا۔ پھر حضرت ابوالہیثم اٹھے کہ مہمانوں کے لیے کھانا تیار کریں تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہمارے لیے دودھ دینے والا جانور ذبح نہ کرنا۔ لہٰذا انہوں نے بکری کا بچہ ذبح کیا اور کھانا تیار کرکے لےآئے۔ ان حضرات نے کھانا کھایا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہارے پاس کوئی خادم بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا: نہیں۔ آپ نے فرمایا کہ جب ہمارے پاس قیدی غلام آئیں تو تم بھی ہمارے پاس آنا۔ اتفاقاً ایک جگہ سے دو غلا م آگئے تو حضرت ابوالہیثم بھی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ ان دونوں میں سے جس غلام کو چاہو منتخب کرلو۔ انہوں نے عرض کیا: حضرت آپ ہی میرے لیے منتخب فرمادیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایاکہ مشورہ دینے والا امین ہوتا ہے،اس لیے میں بھی امین ہونے کی حیثیت سے فلاں غلام کو پسند کرتا ہوں۔ اس لیے کہ میں نے دیکھا ہے کہ وہ نماز پڑھتا ہے لیکن میں تمہیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ پھر ابوالہیثم اپنے غلام کو لے کر آئے اور اپنی بیوی سے سارا واقعہ بیان کیا اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی سنایا تو ان کی بیوی نے کہا: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد مبارک کا حق تم ادا نہ کرسکوگے، اس لیے بہتر یہی ہے کہ تم اس کو آزاد ہی کردو۔ چنانچہ انہوں نے اس کو آزاد کردیا۔ پھر جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے جانثار صحابی کے واقعہ کا علم ہوا تو آپ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اپنے نبی اور اس کے جانشین کو دو باطنی مشیر بھی دیتے ہیں، ایک ان میں سے نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہےجبکہ دوسرا مشیر اس میں خرابی پیدا کرنے میں کسر نہیں چھوڑتا، جو شخص برے مشیر سے بچا لیا گیا وہ حقیقت میں برائی سے محفوظ ہوگیا۔
نوٹ اسی طرح کا ایک واقعہ حکایات صحابہ میں لکھا ہے مگر وہاں مہمان نوازی حضرت ابو ایوب انصاری نے کی تھی اور اس وقت نبی پاک نے فرمایا جس کا مفہوم ابو ایوب یہ بھونا گوشت اور یہ روٹی فاطمہ کے گھر دے آؤ کہ کئی چاند گزر گئے اس کے گھر چولھا نہیں جلا۔
حالات اور وقت ہر کسی پر آتے ہیں ان حالات میں ساتھ دینے والا مہربان ہوتا ہے۔ اللہ نے کہا نہ کہ انسان بہت ناشکرا ہے نعمتوں کے ملنے پر شکر گزاری نہیں کرتا اور حالات آجائے تو ناشکری کرتا ہے اور ناشکری کرنے والوں کے رزق میں کمی ہو جاتی ہے۔
گذشتہ دفعہ میں نے موسی علیہ السلام کے زمانے کا واقعہ تحریر کیا تھا ایک امیر رہتا اس کے پاس بہت مال و دولت بہت جمع ہو جاتا وہ موسی علیہ السلام کو بولتا۔
اے موسی میرے پاس مال و دولت بہت ہے اللہ کو بول اب بس نہیں چاہیے مجھے اور کچھ۔ اس کے بعد ایک غریب ملتا بولتا اے موسی تو کلیم اللہ ہے اللہ سے بات کرنے جا رہا ہے نا۔ تو بول اللہ کو میں بہت غریب ہو اور مجھے اللہ مال دار بنا دے۔
موسی اللہ سے بات کرکے واپس آتے ہیں اور مالدار سے کہتے ہیں تو اللہ کی ناشکری کر تیرا مال کم ہوجائے گا۔
وہ کہتا ہے۔ اے موسی میں ناشکری نہیں کر سکتا تو اللہ اس کے مال و دولت میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔
غریب کو بولتے کہ اللہ نے کہا اس کی شکر گزاری کر غریب کہتا ہے میں اس کی شکر گزاری کروں؟
شکر گزاری کرنے میرے پاس کیا ہے سوائے اس لنگی کے تو ایک زور دار ہوا چلتی ہے اور اس کی وہ لنگی میں ہاتھ سے چلی جاتی ہے۔
اللہ کی نعمتوں کی ناشکری نہیں کرنا چاہیے۔
*زندگی دی دی ہوئی اسی کی ہے*
*حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا*
آج کا مقابلہ سچ میں بہت اچھا ہوا اور امید کرتا ہوں روٹی کی اہمیت کو آپ سمجھ گئے ہوں گے۔
*ہم لوگ وصال و ہجر پہ روتے ہیں زار و زار*
*دکھ درد اس سے پوچھئے جسے بھوک کھا گئی*
@Ansari Shakeebulhasan
بات نکلیں گی تو دور تلک جائے گی۔
اور بہت کچھ تو آپ کے اشعار نے سمجھا دیا۔ شکریہ لکھنا تو بہت چاہتا ہوں مگر تنگی وقت کے سبب نتیجے کا اعلان کر رہا ہوں۔
نتیجے کا اعلان کرنا یہ بہت بڑی ذمہداری ہوتی اس میں کمی بیشی کو اللہ کے لیے معاف کرنا میں ایک نااہل ہوں پھر بھی کوشش کر لیتا ہوں۔
*انعام خصوصی*
*جس بستی میں ہم بستے ہیں*
*روٹی مہنگی غم سستے ہیں*
@~قا ضی فردوس فاطمہ
آج کی تصویر پر اشعار
تھکے تھکے ہوئے اٹھتے ہیں صبح وہ بچے
وہ جو خواب میں روٹی تلاش کرتے ہیں
ماں باپ جن کے آج حادثے میں مرگئے
نظروں میں پھر رہی ہے صورت یتیم کی
وفا سید @@Syed Naseemuddin
*ظالم نے ختم کر دیا ماں باپ بھائی کو*
*شفقت بھرے نوالوں سے محروم ہو گیا*
*🖊️ نثار وسیم چنپٹنوی*@~NISAR WASEEM
غربت نے میرے بچوں کو تہذیب سیکھادی
سہمے ہوئے رہتے ہیں شرارت نہیں کرتے
@فرحت
بھوک کی یہ شدت بھی آخر کیا سے کیا کر دیتی ہے
مجبوراً کل بچوں کی ہم گڑیاں بیچ کے آئے ہیں
@Hanpure Waseem Raja Sir
*انعام اول*
بھوک میری ہمسفر ہے راستہ روٹی کا ہے
میری ساری شاعری میں ذائقہ روٹی کا ہے
پیٹ پوجا ہورہی ہے بندگی کے نام پر
بھوک مذہب بن گئ ہے دیوتا روٹی کا ہے
@.فرح نور محمد
بے وقار لمحوں میں بود و باش کر نی ہے
بھیک بھی نہیں لینی، بھوک بھی مٹانا ہے
بتاؤں کیا جو تعلق ہے پتھروں سے مرا
انہیں بھی گھر میں ابالا گیا تھا بچپن میں
ساجد رحیم
@Ansari Shakeebulhasan
اس شعر نے حضرت عمر کا واقعہ یاد دلا دیا۔ خود اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لے آئے تھے۔ یاد آیا
روٹی امیر شہر کے کتوں نے چھین لی
فاقہ غریب شہر کے بچوں میں بٹ گیا
@~قا ضی فردوس فاطمہ
*بھوک کو حاضر ناظر جان کے کہتا ہوں*
*اک روٹی کی خوشبو عشق پہ بھاری ہے*
@Gohar
*انعام دوم*
*اک تناسب سے مجھ کو ملتا ہے*
*رزق ہے ، ماں کا پیار تھوڑی ہے*
@Abdus Sattar Sir Nanded
گاڑیوں کے ٹائر کے نشان سینے پہ پڑتے ہوں گے
سڑکوں پہ کئی بچپن بھوک میں دب کے مرتے ہوں گے
@Faheem Baji
منہ کی بات سنے ہر کوئی دل کے درد کو جانے کون
آوازوں کے بازاروں میں خاموشی پہچانے کون
@سید وقار احمد مشاعرہ گروپ
اکیلا سہتا تو ہوتے محسوس دُکھ
بانٹ لینے سے دُکھ دُکھ نہیں رہتے
مرتے ہیں وہ جو کھاتے ہیں چھین کر
بانٹ کے کھانے والے بھوکے نہیں رہتے
@Fauzia Baji Malik Amber
بھوکے بچوں کی تسلی کے لیے
ماں نے پھر پانی پکایا دیر تک
@Mohd Ashfaq
@Mujahed Sahab, Phd
*انعام سوم*
یتیم بچے بلکتے ہیں گودیوں کے لیے
غریب شہر ترستے ہیں روٹیوں کے لیے
@Syed Huma
یاد رہ جاتے ہیں احباب کے لطف وکرم۔ دن مصیبت کے بحر حال گذر جاتے ہیں
@~Syed Shafiuddin Nehri
بچوں کی فیس ان کی کتابیں قلم دوات
میری غریب آنکھوں میں اسکول چبھ گیا
@Shaikh Naeem Aurangabad
ان اشعار کو جمع کرکے نثری شکل دے تو فلسطینی بچوں پر مضمون بن جائے گا۔