Sunday, December 20, 2020

زندان

*زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت* 

*آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے* 

احمد امیٹھوی
*محترم اراکین بزم محفل مشاعرہ*
*السلام علیکم*
گزشتہ ایک ماہ سے بزم کی کارکردگی پر جب نظر دوڑائی جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس بزم میں کتنے قابل تعریف ہستیاں موجود ہے جن کی شہرت مہاراشٹر ریاست کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور اگر ہم اپنے بزم محفل مشاعرہ کی بات کریں اور اس کی تشہیر کریں تو آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کی دھوم سارے جہاں میں ہوجائے گی کیونکہ اس بزم میں علیم اسرار جیسے جدید شاعر سرتاج شاکر سر جیسے مفکر قوم توصیف پرویز جیسے ذی شعور شخصیت اور سمیع الدین صدیقی سر جیسے لیکچرار موجود ہے ایک انداز رکھنے والے ذرا ہٹ کر لکھنے والی شخصیت انصاری شکیب الحسن برجستہ کلام کرنے والی ہستی جناب عبدالستار ادب پر اپنی پکڑ بنائے رکھنے والی محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی اور خواجہ کوثر باجی صاحبہ سائنس کی دنیا میں اپنا منفرد انداز رکھنے والی صوفیہ عطار صاحبہ قاضی فوزیہ انجم صاحبہ جن کا حسن انتخاب بہترین ہوتا ہے اور نٹکھٹ اور ہمت و حوصلہ افزا فریسہ انصاری آواز کی دنیا کہ ملکہ محترمہ نقوی شاد زہرہ صاحبہ تصویر کے انتخاب کے بیتاج بادشاہ سید وقار احمد سر کسی کا دل نہ دکھانے والے اشرف سر سید نسیم الدین وفا اور ان کے دوست حافظ ابراہیم محمودی صاحب جو قیامت کے دن ہماری سفارش کرینگے جنت میں لےجانے کے لیے اور میرے عزیز دوست عبدالرزاق سر اور انصاری ابرار جیسی قابل شخصیات سے بھرا ہوا یہ گلشن اپنے آب وتاب کے ساتھ رواں ودواں ہے۔
ان احباب کے سامنے اپنی بات رکھنا اس کی مثال سورج کو دیا دکھانے کے مترادف ہے۔
میں اپنے آپ کو اس بزم کا طفل مکتب سمجھتا ہوں اور آپ تمام اراکین بزم محفل مشاعرہ سے روز کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔
آج کے مقابلے میں بہت ہی کم شرکاء نے حصہ لیا کبھی کبھی یہ میرے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے سوچتا ہوں شاید تصویر معنی خیز نہیں مگر جب اشعار پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کہاں کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہیں یہ خزانہ میں نے سوچا نہیں تھا کہ اس طرح کا بھی شعر اس پر جچیگا۔


*پھر آج بھوک ہمارا شکار کر لے گی*
*کہ رات ہو گئی دریا میں جال ڈالے ہوئے*

طارق قمر



*قاضی فوزیہ انجم* 

*انصاری شکیب الحسن* کے اشعار کو جب پڑھتا ہوں تو لگتا ہے یہ شخص زندہ ولی ہے کیا سادگی اور کتنا پیارا انداز ہوتا ہے اپنے درد کو بیان کرنے کا اور کتنا پیارا لکھتے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ 
 
*کیوں ہم  کو  سناتے  ہو  جہنم  کے  فسانے* 
*اس دور میں جینے کی سزا کم تو نہیں ہے*
*سلمی سید رحیم* صاحبہ نے آج بہت دنوں کے بعد بزم میں بہت دنوں کے بعد حاضری لگائی اور کہا کہ
  *بھوک میں کوئی کیا بتلاۓ کیسا لگتا ہے*
*سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے*
سچ کہا آپ نے مگر آج کل قوم میں روٹی کی قدر کرنے والے ہم ہوگئے ہیں لوگ چائنیز کے شہدائی ہوگئے ہیں قیامت کے آثار میں سے یہ بھی ہے کہ قرب قیامت مال و دولت کی افراط ہوجائے گی سو ہوگئی لوگ باسی کھانا عیب سمجھتے ہیں اور روٹیوں کو راستے پر پھینک دیتے ہیں بچپن میں آٹھویں حدیث پڑھتے تھے *روٹی کی عزت کرو*
اللہ ہمیں روٹی کی قدر کرنے والا بنائے 
دوسرا شعر بھی عمدہ ہے 
*مانگی نہیں کسی سے بھی ہمدردیوں کی بھیک*
*ساجد کبھی خلاف انا کچھ نہیں کیا*

*تھکا دیا ہے اسے آندھیوں نے مل جل کے*
*وہ پرندہ جو اونچی اڑان رکھتا تھا*
درجہ بالا شعر ماضی کی یاد دلاتا ہے کہ جو غریب و مفلس  ہوتا ہے اور روزگار کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا اپنی بھوک مٹانے کی غرض سے جرم کرتا تھا تاکہ اسے دو وقت کا کھانا میسر ہو سکے  
*خان گوہر نایاب* نے بہت اچھا شعر کہا 
 
کیسی گرانی ہے عزت کی روٹی میں 
اس سے سستی اک بندوق کی گولی ہے
عشرت معین سیما
دو وقت کی روٹی کے لیے بیچارہ مزدور پیشہ شخص کتنوں کی گالیوں سے اپنا پیٹ بھر کر پیسہ کماتا ہے اور پھر افراد خاندان کی پرورش کرتا ہے۔ اگر مزدور کی جگہ معلم لیا جائے تو بےجا نہ ہوگا %20 پر کام کرتا ہے صدر مدرس سوسائٹی ممبران سرپرست اور بچے مل کر اسے پریشان کرتے ہیں خیر *بشری جبین صاحبہ* نے بھی اپنے شعر کو مقام دلوانے میں کمی نہیں رکھی کہا کہ 
*غم کہنے کو تو بڑا کم لگتا ہے*
*پر یہ سہنے میں بڑا دم لگتا ہے*
فریسہ باجی نے بھی زندگی کے اضطراب کی بات کی اور کہا

*چھین لیتی ہے آدمی کا وقار*
*مفلسی بھی عذاب ہے، یارو*

*کیوں نہ مرنے سے جی لگائیں ہم؟*
*زندگی اضطراب ہے، یارو*

جعفر عسکری

نقوی شاذ زہرہ صاحبہ کے تمام اشعار بہت اعلی معیار کے ہیں وہ مفلسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ *مفلسی حسن لطافت کو مٹا دیتی ہے* 
*بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھک سکتی*
*انصاری شکیب الحسن* صاحب کہتے ہیں کہ 
*ذات کا غم شدید تھا اتنا*
*میں غمِ کائنات بھول گیا*
*انصاری ابرار بھائی* آپ نے وقت نکالا اور تصویر پر شعر کہا میرے پاس الفاظ نہیں آپ کو شکریہ کہنے کے لیے 
 *مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا* 
*مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں*

*مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے* 
*گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں*

فوزیہ باجی آپ نے وہ داستاں چھیڑ دی جو سنانے بیٹھے تو صدیاں گذر جائے
*زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں*
*ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں*

فیض احمد فیض
آج کے زندگی کے ہر ورق پر غم سے بھر ایک پن٘ا لکھا جا رہا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی جدا ہو رہا ہے 
 *فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ* نے آج بہت دیر کردی خیر دیر آئے درست آئے 

*وہ جس کا بھوک غربت خودکشی پرخاتمہ ہوگا*
*کہانی کا اسی کردارسےہی واسطہ ہوگا*
پھر کہا کہ 

*بھوک کےپیاس کےخطرات سےڈرجاتاہے*
*مارکےاپنےہی بچوّں کو وہ مرجاتاہے*
*ہرطرف اس کی ہی محنت کےمظاہرہیں مگر* 
*بھوک کےہاتھ سےمزدوربکھر جاتاہے*
درجہ بالا تصویر پر اشعار پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہر شعر کچھ کہتا ہے ہے گھر کی ایک کہانی ہے اور ہر درد کے پیچھے بھوک ہے اور ہر بھوک کی ایک داستان ہے مگر آج کے مقابلے کا پہلا انعام جاتا ہے 
*محترم انصاری ابرار سر* صدرد مدرس برہانی نیشنل ہائی اسکول اورنگ آباد کے نام جو تصویر کی صحیح عکاسی کرنے والا شعر تھا 

🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*اسیری میں خواہش تھی آزاد ہونا
مگر بھوک نے دی ہے خواہش کو ترمیم
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
دوسرا مقام حاصل کرنے والا شعر ہے 
 *انصاری فریسہ جبین صاحبہ* کا 
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁

بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
اور تیسرا مقام *محترمہ سلمی سید رحیم* کے نام
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂


*بھوک میں کوئی کیا بتلاۓ کیسا لگتا ہے*
*سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے*
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂


خان محمد یاسر

Sunday, December 13, 2020

عورت

*محترم اراکین بزم محفل مشاعرہ* 
🌹🌹 *السلام علیکم* 🌹🌹
آج کا مقابلہ اس ماں بیٹی بہن اور بیوی کے نام جو اپنے اہل خاندان کے لیے اپنی ہستی کو مٹا دیتی ہے اپنی ممتا نچھاور کرتی ہے۔ دن بھر کی تھکاوٹ کے بعد بھی کبھی حرف شکایت زبان پر نہیں لاتی مجھے اپنا ایک واقعہ یاد ہے جب میں پڑھائی میں کمزور تھا تب میری والدہ نصیحت کے لیے مارتی تھیں مگر خود ہی دلاسہ بھی دیتی تھیں کہ کیوں مارا یہ چیز ماں کی ممتا کہلاتی ہے۔
عورت ہر روپ میں اپنی محبت اور محنت اپنے خاندان والوں کے لئے رکھتی ہے وہ گھر کی مالکن سے لیکر نوکری تک بن جاتی ہے اپنی اولاد کی شہزادوں اور شہزادیوں کی مانند پرورش کرتی ہے اپنے خاوند کو سر کا تاج بنا کر رکھتی ہے بھائی کو آنکھوں کا تارا مانتی ہے اور باپکو اپنا پہلا ہیرو سمجھ کر اس کی بہت عزت کرتی ہے۔ 
مگر بدلے میں اسے کیا ملتا ہے کبھی خوشی کبھی اپنوں سے رسوائی کبھی دکھ کبھی گہرے زخم پھر بھی مسکرا مسکرا کر ہر ایک سے خواندہ پیشانی سے پیش آتی ہیں اپنی تکلیفوں کو کسی کے سامنے بیاں نہیں کرتی اس کی اس ادا پر علامہ اقبال نہ کہا تھا 
*وجودِزن سےہےتصویرِکائنات میں رنگ*
*اسی کےسازسےہےزندگی کاسوزِ دروں*
*مکالماتِ فلاطوں نہ لکھ سکی لیکن*
*اسی کے شعلےسےٹوٹاشرارِ افلاطوں*
     *علامہ اقبال*
یہ شعر  خان گوہر نایاب نے ارسال کیا اور بعد میں اس شعر کو فھیم خاتون مسرت باجی نے بھی بھیجا ہے 
قاضی فوزیہ انجم باجی کا کہنا ہے کہ
*یہ منظر یہ روپ انوکھے سب شہکار ہمارے ہیں*
*ہم نے اپنے خون جگر سے کیا کیا نقش ابھارے ہیں*
بلکل صحیح 
*مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے*
*ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا*

اس بات پر ایک لطیفہ یاد آیا 
بیوی: میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔
خاوند: اللہ کی امان ہو، سب کو میرا  سلام کہنا۔
بیوی: تم تو مجھ سے جان ہی چھڑانے کیلیئے بیٹھے ہوتے ہو۔😂
خاوند: لا حول ولا قوة الا بالله

**********

بیوی: میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔ 
خاوند: آج ادھر ہی رہو میرے ساتھ، کسی اور دن چلی جانا۔ 
بیوی: تم تو بس مجھے ہر وقت  اسی گھر میں قید ہی رکھنا چاہتے ہو۔ 😂
خاوند: لا حول ولا قوة الا بالله

**********

بیوی: میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔ 
خاوند: جیسے تمہیں اچھا لگے۔ 
بیوی: تو گویا میرا ہونا نہ ہونا تمارے لیئے ایک برابر ہے۔ 
میری تو کوئی اہمیت ہی نہیں ہے اس گھر میں۔😂
خاوند: لا حول ولا قوة الا بالله

**********

بیوی: میں ذرا میکے جانا چاہتی ہوں۔ 
خاوند: کہو تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں؟
بیوی: یعنی میں میکے اس لیئے جا رہی ہوں کہ میری آپ سے وہاں پر ملاقات طے ہے؟ مجھے کچھ آرام چاہیئے، اس لیئے اُدھر جا رہی ہوں۔🤪
خاوند: لا حول ولا قوة الا بالله

**********

"ہر علم، ہر عالم، بشر، جن، بھوت، نباتات اور ساری جمادات ابھی تک کوئی ایسا جواب ڈھونڈنے سے قاصر ہیں جس سے "بیوی" راضی ہو جائے"😁
حافظ ابراہیم محمودی صاحب نے کہا کہ
*عورت ہوں مگر صورت کہسار کھڑی ہو*
*اک سچ کے تحفظ کے لیے سب سے لڑی ہوں*
عبدالستار سر نے بھی ماں اور بہن کی تعریف کی اور کہا کہ
*بہن کی التجا ماں کی محبت ساتھ چلتی ہے* 

*وفائے دوستاں بہر مشقت ساتھ چلتی ہے* 

        سید ضمیر جعفری
فھیم باجی نے عورت کے تعلق سے بہت عمدہ بات کہی کہ

*تربیت سےتیری میں انجم کاہم قسمت ہوا*
*گھرمیں میرےاجدادکاسرمایۂ عزّت ہوا*
*دفترِہستی میں تھی زرّں ورق تیری حیات*
*تھی سراپا دین ودنیاکاسبق تیری حیات*
       *کیفی اعظمی*
اشرف سر نے مان لیا کہ جینے کی حلاوت کس سے ہے اور کہا 
*تُم ہو تو غر بت وطن،  تُم بن ویران ہے چمن*
*ہو دیس یا پردیس جینے کی حلا وت تم سے ہے*
*مولانا حالی*

*اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش*
*مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند*

*کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ*
*آزادئ نسواں کہ زمرّد کا گلوبند!*

اقبال
ناجانے آج اشرف سر کو کیا ہوگیا بڑی اچھے اشعار ارسال کر رہے ہیں


محترمہ نقوی شاد زہرہ صاحبہ کا کہنا ہے کہ


*سرور جاں فزا دیتی ہے آغوش وطن سب کو*

*کہ جیسے بھی ہوں بچے ماں کو پیارے ایک جیسے ہیں*

سرفراز شاہد

*طاق پر جزدان میں لپٹی دعائیں رہ گئیں* 

*چل دیئے بیٹے سفر پر گھر میں مائیں رہ گئیں* 

افتخار نسیم



*تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک* 

*مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی* 

منور رانا..

*اتنی بے چین تھی اس رات مہک پھولوں کی*
*جیسے ماں جس کو ہو کھوئے ہوئے بچے کی تلاش*

احمد ندیم قاسمی


*اس نئے دور نے ماں باپ کا حق چھین لیا*
*اپنے بچوں کو نصیحت بھی نہیں کر سکتے*

عباس دانا
آج مقابلے میں کافی کم اراکین شریک ہوئے مگر جو شریک ہوئے وہ قابل تعریف ہے
انعام اول کے لیے جو شعر میں منتخب کیا ہو وہ اشرف سر کا آخر والا شعر ہے جس میں تصویر کا نچوڑ مل رہا ہے
🌹1️⃣🌹انعام اول🌹1️⃣🌹
*ڈٹ گئ راہ میں ہمیشہ توچٹانوں کی طرح*
*تیراہرروپ وفاعزّت وناموس بقاء*
*پھربھی ہردورمیں مردوں کی اطاعت کی ہے*
*تونےاس طرح بھی دنیامیں عبادت کی ہے*

2️⃣🌹انعام دوم🌹2️⃣ 
فھیم خاتون مسرت باجی  کا ہے

*تیری ہستی ہےزمانےکےلئےمشعلِ راہ*
*تیرےقدموں کےتلےجنّتِ فردوس بھی ہے*
*زندگی تیرےلئےعظمتِ معراج بھی ہے*
*آنکھ میں نور تو رنگوں میں حیاباقی ہے*
3️⃣🌹 *انعام سوم*🌹3️⃣
*مٹی پہ نمودار ہیں پانی کے ذخیرے*
*ان میں کوئی عورت سے زیادہ نہیں گہرا*
قاضی فوزیہ انجم باجی 
آج میں خواجہ کوثر باجی فریسہ باجی سید نسیم الدین سر انصاری شکیب الحسن سرسید وقار احمد عبدالملک نظامی سر سرتاج شاکر سر عقیل سر اشفاق سر اور دیگر ممبران کی کمی کو محسوس کیا 
 *خان محمد یاسر*