*زندگی ہے اپنے قبضے میں نہ اپنے بس میں موت*
*آدمی مجبور ہے اور کس قدر مجبور ہے*
احمد امیٹھوی
*محترم اراکین بزم محفل مشاعرہ*
*السلام علیکم*
گزشتہ ایک ماہ سے بزم کی کارکردگی پر جب نظر دوڑائی جائے تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس بزم میں کتنے قابل تعریف ہستیاں موجود ہے جن کی شہرت مہاراشٹر ریاست کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی ہے اور اگر ہم اپنے بزم محفل مشاعرہ کی بات کریں اور اس کی تشہیر کریں تو آپ خود اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس کی دھوم سارے جہاں میں ہوجائے گی کیونکہ اس بزم میں علیم اسرار جیسے جدید شاعر سرتاج شاکر سر جیسے مفکر قوم توصیف پرویز جیسے ذی شعور شخصیت اور سمیع الدین صدیقی سر جیسے لیکچرار موجود ہے ایک انداز رکھنے والے ذرا ہٹ کر لکھنے والی شخصیت انصاری شکیب الحسن برجستہ کلام کرنے والی ہستی جناب عبدالستار ادب پر اپنی پکڑ بنائے رکھنے والی محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی اور خواجہ کوثر باجی صاحبہ سائنس کی دنیا میں اپنا منفرد انداز رکھنے والی صوفیہ عطار صاحبہ قاضی فوزیہ انجم صاحبہ جن کا حسن انتخاب بہترین ہوتا ہے اور نٹکھٹ اور ہمت و حوصلہ افزا فریسہ انصاری آواز کی دنیا کہ ملکہ محترمہ نقوی شاد زہرہ صاحبہ تصویر کے انتخاب کے بیتاج بادشاہ سید وقار احمد سر کسی کا دل نہ دکھانے والے اشرف سر سید نسیم الدین وفا اور ان کے دوست حافظ ابراہیم محمودی صاحب جو قیامت کے دن ہماری سفارش کرینگے جنت میں لےجانے کے لیے اور میرے عزیز دوست عبدالرزاق سر اور انصاری ابرار جیسی قابل شخصیات سے بھرا ہوا یہ گلشن اپنے آب وتاب کے ساتھ رواں ودواں ہے۔
ان احباب کے سامنے اپنی بات رکھنا اس کی مثال سورج کو دیا دکھانے کے مترادف ہے۔
میں اپنے آپ کو اس بزم کا طفل مکتب سمجھتا ہوں اور آپ تمام اراکین بزم محفل مشاعرہ سے روز کچھ نہ کچھ سیکھتا ہوں۔
آج کے مقابلے میں بہت ہی کم شرکاء نے حصہ لیا کبھی کبھی یہ میرے لیے تکلیف کا باعث بن جاتا ہے سوچتا ہوں شاید تصویر معنی خیز نہیں مگر جب اشعار پڑھتا ہوں تو لگتا ہے کہ کہاں کہاں سے ڈھونڈ لاتے ہیں یہ خزانہ میں نے سوچا نہیں تھا کہ اس طرح کا بھی شعر اس پر جچیگا۔
*پھر آج بھوک ہمارا شکار کر لے گی*
*کہ رات ہو گئی دریا میں جال ڈالے ہوئے*
طارق قمر
*قاضی فوزیہ انجم*
*انصاری شکیب الحسن* کے اشعار کو جب پڑھتا ہوں تو لگتا ہے یہ شخص زندہ ولی ہے کیا سادگی اور کتنا پیارا انداز ہوتا ہے اپنے درد کو بیان کرنے کا اور کتنا پیارا لکھتے ہیں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
*کیوں ہم کو سناتے ہو جہنم کے فسانے*
*اس دور میں جینے کی سزا کم تو نہیں ہے*
*سلمی سید رحیم* صاحبہ نے آج بہت دنوں کے بعد بزم میں بہت دنوں کے بعد حاضری لگائی اور کہا کہ
*بھوک میں کوئی کیا بتلاۓ کیسا لگتا ہے*
*سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے*
سچ کہا آپ نے مگر آج کل قوم میں روٹی کی قدر کرنے والے ہم ہوگئے ہیں لوگ چائنیز کے شہدائی ہوگئے ہیں قیامت کے آثار میں سے یہ بھی ہے کہ قرب قیامت مال و دولت کی افراط ہوجائے گی سو ہوگئی لوگ باسی کھانا عیب سمجھتے ہیں اور روٹیوں کو راستے پر پھینک دیتے ہیں بچپن میں آٹھویں حدیث پڑھتے تھے *روٹی کی عزت کرو*
اللہ ہمیں روٹی کی قدر کرنے والا بنائے
دوسرا شعر بھی عمدہ ہے
*مانگی نہیں کسی سے بھی ہمدردیوں کی بھیک*
*ساجد کبھی خلاف انا کچھ نہیں کیا*
*تھکا دیا ہے اسے آندھیوں نے مل جل کے*
*وہ پرندہ جو اونچی اڑان رکھتا تھا*
درجہ بالا شعر ماضی کی یاد دلاتا ہے کہ جو غریب و مفلس ہوتا ہے اور روزگار کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آتا تھا اپنی بھوک مٹانے کی غرض سے جرم کرتا تھا تاکہ اسے دو وقت کا کھانا میسر ہو سکے
*خان گوہر نایاب* نے بہت اچھا شعر کہا
کیسی گرانی ہے عزت کی روٹی میں
اس سے سستی اک بندوق کی گولی ہے
عشرت معین سیما
دو وقت کی روٹی کے لیے بیچارہ مزدور پیشہ شخص کتنوں کی گالیوں سے اپنا پیٹ بھر کر پیسہ کماتا ہے اور پھر افراد خاندان کی پرورش کرتا ہے۔ اگر مزدور کی جگہ معلم لیا جائے تو بےجا نہ ہوگا %20 پر کام کرتا ہے صدر مدرس سوسائٹی ممبران سرپرست اور بچے مل کر اسے پریشان کرتے ہیں خیر *بشری جبین صاحبہ* نے بھی اپنے شعر کو مقام دلوانے میں کمی نہیں رکھی کہا کہ
*غم کہنے کو تو بڑا کم لگتا ہے*
*پر یہ سہنے میں بڑا دم لگتا ہے*
فریسہ باجی نے بھی زندگی کے اضطراب کی بات کی اور کہا
*چھین لیتی ہے آدمی کا وقار*
*مفلسی بھی عذاب ہے، یارو*
*کیوں نہ مرنے سے جی لگائیں ہم؟*
*زندگی اضطراب ہے، یارو*
جعفر عسکری
نقوی شاذ زہرہ صاحبہ کے تمام اشعار بہت اعلی معیار کے ہیں وہ مفلسی کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ *مفلسی حسن لطافت کو مٹا دیتی ہے*
*بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھک سکتی*
*انصاری شکیب الحسن* صاحب کہتے ہیں کہ
*ذات کا غم شدید تھا اتنا*
*میں غمِ کائنات بھول گیا*
*انصاری ابرار بھائی* آپ نے وقت نکالا اور تصویر پر شعر کہا میرے پاس الفاظ نہیں آپ کو شکریہ کہنے کے لیے
*مفلسوں کی زندگی کا ذکر کیا*
*مفلسی کی موت بھی اچھی نہیں*
*مفلسی بھوک کو شہوت سے ملا دیتی ہے*
*گندمی لمس میں ہے ذائقۂ نان جویں*
فوزیہ باجی آپ نے وہ داستاں چھیڑ دی جو سنانے بیٹھے تو صدیاں گذر جائے
*زندگی کیا کسی مفلس کی قبا ہے جس میں*
*ہر گھڑی درد کے پیوند لگے جاتے ہیں*
فیض احمد فیض
آج کے زندگی کے ہر ورق پر غم سے بھر ایک پن٘ا لکھا جا رہا ہے آئے دن کوئی نہ کوئی جدا ہو رہا ہے
*فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ* نے آج بہت دیر کردی خیر دیر آئے درست آئے
*وہ جس کا بھوک غربت خودکشی پرخاتمہ ہوگا*
*کہانی کا اسی کردارسےہی واسطہ ہوگا*
پھر کہا کہ
*بھوک کےپیاس کےخطرات سےڈرجاتاہے*
*مارکےاپنےہی بچوّں کو وہ مرجاتاہے*
*ہرطرف اس کی ہی محنت کےمظاہرہیں مگر*
*بھوک کےہاتھ سےمزدوربکھر جاتاہے*
درجہ بالا تصویر پر اشعار پڑھ کر یہ بات سمجھ میں آئی کہ ہر شعر کچھ کہتا ہے ہے گھر کی ایک کہانی ہے اور ہر درد کے پیچھے بھوک ہے اور ہر بھوک کی ایک داستان ہے مگر آج کے مقابلے کا پہلا انعام جاتا ہے
*محترم انصاری ابرار سر* صدرد مدرس برہانی نیشنل ہائی اسکول اورنگ آباد کے نام جو تصویر کی صحیح عکاسی کرنے والا شعر تھا
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
*اسیری میں خواہش تھی آزاد ہونا
مگر بھوک نے دی ہے خواہش کو ترمیم
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
دوسرا مقام حاصل کرنے والا شعر ہے
*انصاری فریسہ جبین صاحبہ* کا
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
بھوک پھرتی ہے میرے ملک میں ننگے پاؤں
رزق ظالم کی تجوری میں چھپا بیٹھا ہے
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
اور تیسرا مقام *محترمہ سلمی سید رحیم* کے نام
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂
*بھوک میں کوئی کیا بتلاۓ کیسا لگتا ہے*
*سوکھی روٹی کا ٹکڑا بھی تحفہ لگتا ہے*
🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂🍂
خان محمد یاسر
No comments:
Post a Comment