ایک مرتبہ میں گھر میں اکیلا تھا اور بہت اکتایا ہوا محسوس کررہا تھا کوئی کھوئی ہوئی چیز نہیں مل رہی تھی دادی کے ہاتھوں سلائی کی ہوئی ایک تھیلی ملی اس میں والدہ نے پرانے البم رکھ دیئے تھے جیسے ہی وہ البم میرے ہاتھ لگامانو میرا کھویا ہوا خزانہ مل گیا میں ماضی کی یادوں میں کھو گیا پھر میرے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ محفل والوں کو بھی ماضی یاد کرنے کا موقع فراہم کیا جائے میں نے ایک ایسی تصویر جو سب کے دل کو چھو جائے تلاش کی اور بزم محفل مشاعرہ میں مقابلے کے موضوع کے طور پر اس تصویر کو پیش کردیا۔ اس تصویر نے دل کو جھنجھوڑ دیا اب وہ زمانہ نہیں رہا اب وہ ہستیاں نہیں رہیں جو کبھی مل کر اس طرح باتیں کیا کرتیں تھیں اب وہ دوست اور سہیلیاں نہیں رہے جو وقت ضرورت دل جوئی کرتے تھے اب سوپر فاسٹ دور ہے ادھر دوستی ہوئی اور ادھر کسی بات پر ختم بہر حال قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔
جب بھی کوئی پرانی تصویر نکل آتی ہے ہم ماضی میں کھو جاتے ہیں اس لیے اختر انصاری نے یہ شعر کہا تھا کہ
*یاد ماضی عذاب ہے یارب*
*چھین لے مجھ سے حافظہ میرا*
مقابلہ بہت اچھا رہا سبھی اشعار بہترین تھے لاجواب تھے مانو تصویر کا منہ توڑ جواب تھے
ایک آخری بات کروں گا کہ بشیر بدر نے ایک دہائی قبل یہ غزل لکھ کر آج کے دور کے حال و احوال سے واقف کروا دیا تھا وہ غزل یہ ہے
ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے
کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے
یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو
یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے
کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں
یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے
وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا
اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے
نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر
کئی سال بعد ملے ہیں ہم ترے نام آج کی شام ہے
کوئی نغمہ دھوپ کے گاؤں سا کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا
ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے
شکیب بھائی نے سب سے پہلے اس تصویر کی تعریف کی اور میری ہمت افزائی کی میں ان کا مشکور ہوں عبدالستار سر نے ان کے اس کلام کی تائید کی میں ان کا بھی مشکور ہوں فھیم باجی اور علیم اسرار سر کا بھی میں بہت مشکور ہوں مگر اسی اثنا میں ہمارے بزم کے ساتھی سید وقار احمد سر نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور گروپ سے لیفٹ ہوگئے نہ جانے کیا وجہ ہوئی ہوگی مجھے اس بات کا بہت افسوس ہورہا ہے۔
ابھی اسکول دھیرے دھیرے شروع ہوئے جارہے ہیں اسے میں وقت نکالنا مشکل ہورہا ہے اس تعلق سے مشاورت کمیٹی سے بات کی جائے گی کہ اس طرح روز کے مقابلوں کا کیا کیا جائے۔
خیر دیکھتے ہیں اشعار کیا کہتے ہیں
🌹🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹🌹
*ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ*
*مَیں ابھی آیا ہوں تصویریں پُرانی دیکھ کر*
قاضی فوزیہ انجم صاحبہ
*چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق*
*تصویر یار کو ہے مری گفتگو پسند*
حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب
*دل فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا*
*یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی*
فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ
*نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں*
*تمھارے خوابوں کے بند کمروں میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا*
عبدالرزاق
*گم ہیں یادوں کے بیاباں میں بہت دیر سے ہم*
*گوشہ دل سے ذرا تم ہی صدا دو ہم کو*
سید نسیم الدین وفا
*جب بھی میں ان پتوں کو دیکھوں گا وقار سر کی یاد ستائے گی*
🍁🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁🍁
*بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ*
*آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے*۔۔
نقوی شادزہرا
*اک بہانہ ہے میرے پاس ابھی جینے کا*
*ایک تصویر موبائل میں پڑی ہے تیری*
انصاری شکیب الحسن سر
*کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد*
*زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں*
عبدالستار سر
🍂🍂🍂 *انعام سوم* 🍂🍂🍂
*مدتوں بعد اٹھائے تھے پرانے کاغذ*
*ساتھ میرے تری تصویر نکل آئی ہے*
مراسلہ عبداللہ خان ممبئی
*اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی*
*یاروں نے اتنی دور بسائی ہیں بستیاں*
سیدہ ھما غضنفر
تمام انعام یافتگان و شرکائے مقابلہ کو دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد
خان محمد یاسر
No comments:
Post a Comment