محترم احباب بزم محفل مشاعرہ
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
آج کے نتیجے کا آغاز ہمارے سرپرست محترم عالیجناب سرتاج شاکر سر کے اس فلمی گیت کے مصرعہ سے کرتا ہوں
*پریم کی گلی میں ایک چھوٹا سا گھر بنائینگے*
*کلیاں نہ ملیں نہ سہی کانٹوں سے سجائینگے*
زیادہ تشریح کرنے کی میں ضروت محسوس نہیں کرتا صرف اتنا کہنا چاہوں گا ہر کوئی اپنے گھر کو پریم گلی میں بنوانا چاہتا ہے اور اس کو سجانا چاہتا ہے مگر آج کل کے ماحول اور حالات پر جب مفکرین قوم نظر ڈالتے ہیں تو نوجوانوں کے آشیانے اجڑے ہوئے نظر آتے ہیں
*نہ وہ طائروں کا جمگھٹ نہ وہ شاخ آشیانہ*
*تم اسے خزاں کہو گے کہ بہار کا زمانہ*
ابھی کل کی بات کر لیتے ہیں احمد آباد کی عائیشہ کی ماں باپ آشیانہ بسانے کے لیے اپنا آشیانہ ویران کردیتے ہیں پھر بھی نئی نسل سمجھتی نہیں پہلے باپ بیٹی کو وداع کرتے ہوئے نصیحت کرتا تھا بیٹا چاہے کچھ بھی ہو آج ڈولی میرے گھر سے اٹھی مگر جنازہ تیرے اپنے گھر سے اٹھنا چاہیے 😔 ہائے! وہ بیٹیاں بھی اپنے باپ کی بات کا پاس رکھتی تھیں اپنے ہر دکھ چھپا کر ماں باپ کے سامنے خوشیاں پیش کرتیں تھیں جو اپنے جھونپڑے کو محل سمجھ کر رہتیں تھیں اور اب محل کو جھونپڑی سمجھا جارہا ہے کل وہ خوش رہنے کے لیے دکھوں میں سکھ تلاش کرتیں آج ان کی بیٹیاں سکھوں میں دکھوں کا مداوا کرتیں ہیں جو بیٹیاں کل جھونپڑی میں رہتی تھیں ان کی اولادیں بنگلوں میں مقیم ہیں اور چھوٹی سوچ والے اپنے بنگلے نیلام کر رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بیٹیوں پر ظلم ہو رہا ہو تو ہونے دو بلکہ میرا کہنا ہے کہ اس میں وہ صلاحیت پیدا کرو کہ وہ غموں کی جھونپڑی کو خوشیوں کے محل میں تبدیل کرنے والی ہوجائے۔
اور میں یہ نہیں کہتا کہ بگڑتے ماحول کے لیے بیٹیاں ہی ذمہ دار ہے بیٹے بھی لاپرواہ ہوگئے ہیں ان پر بھی لگام کسا جانا چاہیے اور میں یہاں خلاصہ کرتا چلوں کہ 1950 سے لیکر 1965 تک کے جو والدین آج حیات ہے وہ اپنے خاندان والوں کو دیکھبکر پریشان ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس دنیا کی نہیں سو وہ چیز ہے پھر بھی یہ مطمئن نہیں تو ایسے وقت میں وہ راتوں کو بستر پر پڑے پڑے یہ شعر کے مطابق گھروں میں سکون تلاش کرنے لگتے ہیں اور گھر کو گھر بنانے کی فکر کرتے ہیں گھر سے وحشت کو ختم کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں جو حافظ ابراہیم محمودی صاحب نے کہا
*بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی*
*وگرنہ ہم نے اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں*
اور اللہ میاں سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ
*مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے*
*میں جس مکاں میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے*
خان گوہر نایاب کی تصویر پر خود وہ کہتی ہیں کہ
*صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی*
*واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے*
اس کے برخلاف گوہر کے بھائی جان عبدالرازق حسین کہتے ہیں کہ
*ایک ویرانہ جہاں عمر گزاری میں نے*
*تیری تصویر لگادی ہے تو گھر لگتا ہے*
یہ زندہ دلی میں مثال ہے واہ بہت خوب خوش رہنے کے لیے بہانہ چاہیے
فوزیہ انجم باجی کا یہ شعر کہ
*کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے*
*تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا*
سید نسیم الدین وفا سر نے کہہ
*گھر کبھی اجڑا نہیں ھے گھر کا نقشہ ھے گواہ*
*ہم گئے تو آکے کوئی دوسرا رہ جائے گا*
اپنے گھر کو صرائے سے تعبیر کیا بہت خوب سر
شیخ نعیم صاحب خاموش مزاج شخص ہے وہ کہتے ہیں
*میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے*
*میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے سنسان میرا*
فریسہ باجی آپ کی نگاہ میں کونسی چیز ہے وہ بتا دیجئے
*حسن کو بھی کہاں نصیب جگرؔ*
*وہ جو اک شے مری نگاہ میں ہے*
فرحت باجی بہت خوب شعر کہا
*کھلا مکاں ہے ہر اک زندگی آزر*
*ہوا کے ساتھ دریچوں سے خواب آتے ہیں*
فھیم باجی کیا بات ہے آج کل پریشان حال لوگوں کی زبان یہی ہوگئی ہے وہ گھر نہیں جانا چاہتے مگر الحمدللہ آپ ان میں سے نہیں تابش کی یاد آپ کو جلد سے جلد گھر لے آتی ہے وہ کہتے ہیں نا
اصل سے سود پیارا
*سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہےنگاہیں*
*کیابات ہےمیں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا*
درجہ بالا شعر اشرف سر نے بھی ارسال کیا ہے اور یہ شعر ان پر سجتا بھی ہے میں نے دیکھا دیر رات تک وہ گھر نہیں جاتے۔
ہائے اللہ کیا کہہ ڈالا سر یہ بات تو ہونی ہی ہے اچھے لوگ جب زندگی سے چلے جاتے ہیں تو ویرانیاں پیر پسارنے لگتی ہے
*وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح*
*اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں*
نقوی شاذ زہرا صاحبہ کہتی ہے کہ
*میرے وجود کے اندر ہے اک قدیم مکان*
*جہاں سے میں یہ اداسی ادھار لیتی ہوں*
سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ کہتی ہیں
*اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے*
*جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے*
اشرف سر آپ کی خواہشات کو قابو میں رکھو اور دل کی بات پر عمل کرو
*خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت*
*شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا*
شیخ نسرین رسول صاحبہ دنیش نائیڈو کا شعر کہہ رہی ہے کہ
*ڈرا رہے ہیں یہ منظر بھی اب تو گھر کے مجھے*
*دکھائی خواب دئیے رات بھر کھنڈر کے مجھے*
کچھ نہیں ہوتا محترمہ سنا ہے جو خوابوں میں کھنڈر دیکھتے ہیں وہ محلوں میں رہنے والے ہوتے ہیں اللہ بری تعبیر سے محفوظ رکھے
اسما صاحبہ نے بہت خوب کہا کہ
*مت پُوچھیے طوائفِ لوح و قلم کا حال*
*بازار سے اُٹھی سرِ دربار گر پڑی*
*دیمک نے گھر کو چاٹ کے وہ حال کر دیا*
*در کو سنبھالا ہم نے تو دیوار گر پڑی*
انصاری شکیب الحسن سر اللہ آپ کی دعا جلد از جلد قبول کرے
*میرے ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے*
*وہ مرے گھر کے در و بام سجانے آئے*
*اسی کوچے میں کئی اس کے شناسا بھی تو ہیں*
*وہ کسی اور سے ملنے کے بہانے آئے*
🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹
*انصاری شکیب الحسن سر*
مدتوں بعد میں آیا ہوں پرانے گھر میں
خود کو جی بھر کر رلاؤں گا چلا جاؤں گا
اپنی دہلیز پہ کچھ دیر پڑا رہنے دو
جیسے ہی ہوش میں آؤں گا چلا جاؤں گا
*محمد اشرف سر*
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہےل
🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁
*اسما صاحبہ*
اِن بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچّا تیرا مکان ہے کُچّھ تو خیال کر
🍂🍂 *انعام سوم*🍂🍂
*ھما غضنفر جاوید صاحبہ*
جو ہجرت کی تو دل اپنا پرانے گھر میں چھوڑ آئے
سو اب اچھے سے اچھا بھی ہو گھر اچھا نہیں لگتا
🌸 *میرے پسندیدہ اشعار* 🌸
*فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*
اب تواس راہ سےوہ شخص گزرتا بھی نہیں
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ کوئ آواز کوئی چاپ نہیں
دل کئ گلیاں بڑی سنسان ہے آئے کوئی
*نقوی شاذ زہرا صاحبہ*
پیوند کی طرح نظر آتا ہے بد نما
پختہ مکان کچے گھروں کے ہجوم میں۔۔
*اللہ حافظ*
🧔🏻🧔🏻 *خان محمد یاسر* 🧔🏻🧔🏻
No comments:
Post a Comment