*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
💕محترم احباب بزم محفل مشاعرہ💕
آج کے نتیجے کے اعلان کے بعد میں گاؤں والوں کے اخلاق اور ان کی خاطر مدارت اور آؤ بھگت سے بات شروع کرنا چاہوں گا اور کوشش کروں گا کہ تمہید کی ابتدا بھی اسی سے ہو۔ ط
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ گاؤں والوں کے دل میں بہت خلوص ہوتا ہے وہ ہر ایک سے خلوص کے ملتے ہیں اور ہر مہمان کو کھانے کے لیے پوچھا کرتے ہیں ان کے گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ان کے گھروں میں داخل ہونے کے لیے کسی دروازے پر دستک دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ لوگ آنے والے کی آہٹ سے ہی جان لیتے ہیں کہ کون آیا ہے۔ چپلوں کی چاپ پر آواز دے کر اندر بلا لیتے ہیں یہ ہوتی ہے محبت چاہت اپنائیت اور یہ مخلصانہ محبت گاؤں کی مٹی میں ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شہر والے اپنی دنیا میں مگن اپنی اہل خانہ کی خوش الہامی میں لگا رہتا ہے اسے رشتے ناطوں سے کوئی سروکار نہیں وہ کبھی کبھی اپنوں کی آوازوں کو سن کر بھی نظر انداز کردیتا ہے دستک اور دستکوں کی بات تو بہت دور ویسے دستاویزات کی دستکوں کو ہر کوئی خوب سمجھ لیتا ہے۔
بہر حال بات کو طول دے کر لاحاصل میں اپنے مدعے پر آتا ہو
تصویر شعر عنوان کے تحت دستک پر اشعار موصول ہوئے تمام ہی معیاری اشعار ہیں آپ احباب کے ذوق و شوق کو اللہ قائم رکھے میں دستک کی تفصیل لکھنا چاہوں کہ کس کس قسم کی دستک ہوتی اور اس پر کس قسم کا ردعمل دیا جاتا ہے۔ پہلی دستک اپنے کسی محبوب کی ہوتی ہے جب اس کے آنے کی آہٹ ہوتی ہے تو دستک دینے سے قبل کی دروازہ کھل جاتا ہے اسے احساس دلانے کے لیے کہ آپ کتنے محبوب ہو کچھ لوگ تو ہوا کے جھونکے پر سمجھ جاتے ہیں کہ کون آیا اس میں سب سے پہلے ماں پھر محبوب کہتے ہیں دل کا دروازہ اندر سے بند ہوتا ہے. باہر دوسرا کوئ ہینڈل یا لاک نہیں ہوتا. جب تک دل والا خود نہ چاہے دل کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا. دل کے دروازے پہ دستک کی آواز صرف احساس کے کانوں سے سنی جاتی ہے.
دل پہ دستک مختلف قسم کی ہوتی ہے کبھی یہ دستک محبت کو جگاتی ہوئ ہوتی ہے تو کبھی یہ محبت مانگتی ہوئ ہوتی ہے، کبھی دوستی کی دستک ہوتی ہے تو کبھی صرف اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہوئی ہوتی ہے. ہر دستک محبت سے شروع ہوتی ہوئی محبت پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ کچھ دستکیں احساسات، انسانیت، محبت، دوستی یا رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہوتی ہے.کبھی کبھی دل پہ دستک اتنی مدھم ہوتی ہے کہ دل والے کو گمان بھی نہیں گزرتا کہ کوئ اسکے دل کے دروازے پہ آس لیئے کھڑا ہے.
اور کبھی کبھی تو دستک سن کر بھی دل والا انجان رہتا ہے کیونکہ اسکا دل کسی اور کی آرام گاہ ہوتا ہے.
کبھی کبھی دل پہ دستک کی آواز دل والا سن تو لیتا ہے مگر اُسے یہ ہلکی مسحورکُن دستک اتنی دلکش لگتی ہے کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے دل کا دروازہ بند رکھتے ہوئے اُسے سنتا رہتا ہے مگر اُسے معلوم نہیں ہوتا کہ بعض مسافر ایک دو دستک کے بعد واپس پلٹ جاتے ہیں کبھی نہ واپس آنے کیلیئے.
کبھی کوئی بھولا بھٹکا شخص کسی غلط دل کے دروازے پر پہنچ کر لگاتار دستک دیتا رہتا ہے. اُسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ دروازہ تاعمر نہیں کھلے گا مگر وہ اس بات سے انجان ساری زندگی اسی دل کے دروازے پہ گزار دیتا ہے. اور دل والا تو پہلے ہی اپنے احساسات کسی اور کے نام کرکے پُرسکون ہوکر گہری نیند میں کھوجاتا ہے کہ نا پھر اُسے اپنے دل پہ دستک محسوس ہوتی ہے نہ ہی اسکے احساسات جاگتے ہیں۔
اب ہم یہ دیکھنے کو شش کرینگے کہ کس کی دستک میں کونسی تاثیر پوشیدہ ہے ویسے تو تمام ہی دستکیں بہت پیاری تھیں میں ان پیاری پیاری دستکوں میں ایسا محو ہوگیا تھا کہ محسوس ہی نہیں ہو کہ وقت کب ختم ہوگیا۔
ویسے بتاتا چلوں یہ اتوار والی ذمہ داری شکیب بھائی کی تھیں اور اس سلسلے کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے اس لیے آج کا عنوان دستک رکھا گیا ہے کہ کچھ مہمان سال میں ایک بار ہی منہ دکھائی کی رسم ادا کرتے ہیں وہ یا تو سالگرہ پر یا عید کے موقع پر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں میں آپ تمام احباب کا ممنون و مشکور ہوں کہ آپ روز اس محفل میں دستک دیتے ہوں اور اپنائیت کا احساس جگاکر یہ جتلاتے ہوکہ ہم غیر نہیں آپ کے اپنے ہی اور میں یہ سمجھتا ہو کہ جب دست دعا اٹھائے جاتے ہوں گے تو محفل کے اپنے بھی یاد آتے ہوں گے اور آپ تمام ضرور ہم سب کے لیے دعائیں مانگتے ہوں گے اور مجھے تو یقین ہے آپ دعائیں کرتے ہیں اسی لیے تو کورونا نے ایک سال پورا کرنے کے باوجود ہم ساتھ ساتھ ہے پت جھڑ کی مانند ہم بکھرے نہیں اللہ کرے ہم اسی طرح ساتھ رہے ہر دکھ میں ہر سکھ میں نے سنا تھا دکھ بانٹنے سے کم اور سکھ بانٹنے سے زیادہ ہوتا اور میں نے آپ تمام کے ساتھ یہ اس سال گزار کر محسوس کیا مجھے بہت سارے بڑے چھوٹے بہن بھائی ملے جن سے میں نے مسکرانا سیکھا درد چھپانا سیکھا لوگوں کو اپنا بنانا سیکھا لکھنا سیکھا پڑھنا سیکھا رونا اور ہنسنا سیکھ میں آپ تمام کا مشکور ہوں اسی لیے آج وہ دستک والی تصویر بھیجی تھی تاکہ یادیں تازہ ہو بہت طویل گفتگو ہو گئی معذرت چاہتا ہو 😘
ہاں بتاتا چلوں یہ کارواں سرتاج شاکر سر کی رہنمائی میں چلا تھا جس میں مشعل شکیب بھائی نے تھامی تھی اور مجھے اس میں چلنا سکھایا اور مجروح سلطان پوری کے شعر کے مطابق
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
آپ تمام احباب جڑتے گئے اور کارواں بنتا گیا مگر اس کارواں کو نایاب گوہر عنایت کئے گئے وہ عبدالملک نظامی سر کی کاوشوں کا نتیجہ تھا عبدالملک سر نے ناندیڑ کے کوہ نور جیسے ہیروں سے متعارف کروایا ہم ہماری محفل مراٹھواڑہ ہی نہیں پورے مہاراشٹر میں مشہور ہوگئی ہے۔ میں تمام ججز اور منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ دن رات اس بزم کی رونق کو بڑھانے اور اس کی آب وتاب کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳
اب نتیجے کی طرف پیش قدمی کرتے ہے اور اعزازی شعر کی تلاش کرتے ہیں اعزازی اشعار 4 ہوں گے
🌹🌹🌹اعزازی اشعار🌹🌹🌹
1️⃣ صدیوں کاانتشارفصیلوں میں قیدتھا
دستک یہ کس نےدی کہ عمارت بکھر گئی
*محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*
2️⃣ دروازہ بھی جیسے میری دھڑکن سے جڑا ہے
دستک ہی بتاتی ہے پرایا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔تم ہو
*محترمہ فریسہ جبین باجی*
3️⃣ چوڑیوں کی کھنک سے پہچانا
کس نے دروازے پردی ہے دستک
*علــــیــم اســرار*
4️⃣چند لمحے کھٹکٹاکر ہم ہی یارو لوٹ أۓ
در حقیقت بند اندر سے وہ دروازہ نہ تھا
*ڈاکٹر منشاء الر رحمان خان منشاء*
یہ شعر ندیم الرحمن منشاء صاحب کے والد محترم کا ہے جنھیں ہم درسی کتابوں میں پڑھا کرتے ہیں
❤️❤️❤️ *انعام اول* ❤️❤️❤️
1️⃣آج وعدہ ہے اس کے آنے کا
آج اٹکی ہے جان دستک پر
*انصاری شکیب الحسن سر*
2️⃣دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا
*خان گوہر نایاب صاحبہ*
3️⃣ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
*وسیم موسی صاحب*
🍁🍁🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁🍁🍁
1️⃣مدتوں بعد لگائی ہے جو دستک تم نے
یاد آنے لگے کتنے ہی زمانے مجھ کو
*علیم اسرار*
2️⃣صبا نے پھر درِ زنداں پہ آکے دی دستک
سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
*محمد اشرف الدین سر*
3️⃣جو آنکھ کھول دوں سن کر ضمیر کی دستک
تو خود کو اپنی نظر میں میں سرخ رو کرلوں
*شیخ نعیم حسن صاحب*
🍂🍂🍂 *انعام سوم* 🍂🍂🍂
1️⃣کس نے نیندوں کو میری ٹوکا تھا؟
کوئی جھونکا تھا؟ کوئی دھوکا تھا؟
*عبدالستار سر*
2️⃣بند رکھوگے دریچے دل کے یارو کب تلک
کوئی دستک دے رہا ہے اٹھ کے دیکھو تو سہی
*محترمہ نقوی شاد زہرا صاحبہ*
3️⃣اس کا دستک کے لئے ہاتھ اٹھا
دل دھڑکنے لگا دروازے کا
*انصاری شکیب الحسن*
دعاؤں کا طالب
*خان محمد یاسر*
No comments:
Post a Comment