Friday, April 2, 2021

خالد ‏سیف ‏الدین ‏: ‏ایک ‏فرد،ایک ‏قافلہ

*خالد سیف الدین :  ایک فرد، ایک قافلہ* 

پانی، ہوا، سورج کی روشنی یہ سب انمول چیزیں اللہ نے ہمیں عطا کی ہے جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں۔کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے لیے نعمت ہوتی ہیں۔خالد سیف الدین صاحب کی شکل میں ایسی ہی نعمت اللہ نے مجھے بھی عطا کی۔ آج جب مجھے خالد سیف الدین صاحب کی مہلک وباء کوروناسے متاثر ہونے کی اور شریک اسپتال کی خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اورمیری آنکھوں سے آنسو نمودار ہوگئے۔ اسی کے ساتھ میرے ذہن میں یادوں کی فلم چلنی شروع ہوگئی کہ میری پہلی ملاقات جناب خالد سیف الدین صاحب سے میرے استاد محترم ڈاکٹر سلیم محی الدین صاحب کے توسط سے ہوئی۔ یہ بات سن 2011ء کی ہے جب ڈاکٹر سلیم محی الدین صاحب نے مجھے ایک روز کال کی اور پوچھا کہ کیا آپ ۰۲/ دنوں کے لیے پربھنی آسکتے ہو۔میں نے حامی بھر لی۔ سلیم سر نے کہا ”پوچھو گے نہیں کہ آپ کو پربھنی کیوں آنا ہے؟“ میں نے کہا ”ضروری کام ہوگا اس لیے آپ مجھے بلا رہے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ”میرے رفیق اور میرے دوست خالد سیف الدین جو کہ پیشہ سے ایکزیکیٹیو انجینئر ہے اور بہت قابل شخصیت ہے۔ وہ شہر پربھنی میں ایک عظیم الشان اردو کا ا ٓنگن منعقد کررہے ہیں۔ جس میں مجھے اور آپ کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہے۔“یہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میں ایک بڑے پروگرام کا حصہ بننے جارہا ہوں۔ میں اپنے بتائے ہوئے وقت پر پربھنی پہنچ گیا۔ اسٹیشن پر سلیم سر مجھے لینے آئے۔ہم دونوں اسٹیشن سے سیدھا فوزیہ میڈم کے کوئینس انگلش اسکول پہنچے جہاں اردو کا آنگن کے لیے آفس اور رہائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔
میری نظریں خالد سیف الدین صاحب کو تلاش کررہی تھی۔ ڈاکٹر سلیم محی الدین نے خالد سیف الدین صاحب کے تعلق سے جو تھوڑا سا تعارف پیش کیا تھا اس کے پیش نظر میرے ذہن میں خالد سیف الدین صاحب کے متعلق یہ شبیہ بنی تھی کہ وہ ایک خشک مزاج و خاموش مزاج،ایک آفیسر قسم کی شخصیت ہوگی۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب خالد سیف الدین صاحب کی آواز آئی میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک سمارٹ،خوبصورت،وجیہہ شخصیت ٹراوزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس، پیروں میں سلیپر چپل پہنے وارد ہوئی۔سلیم سر نے میرا تعارف کروایا۔ خالد سیف الدین صاحب بڑی گرمجوشی سے مجھے گلے لگایا اور میرا استقبال کیا۔ اردو میلے کی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھی۔ باہر لوہے کے فریم پر بینر چسپاں کئے جارہے تھے۔ باہر سے بینر والے لڑکوں نے انہیں بینر دکھانے باہر لے گئے۔ باہر جاکروہ ان لڑکوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور بینر کس طرح چسپاں کرنے ہیں وہ بتانے لگے۔ خالد سیف الدین صاحب کا انداز دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اتنی بڑی شخصیت اور اتنی سادگی۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا خالد سیف الدین کے ساتھ۔ اس کے علاوہ وہ ملٹی ٹیلنٹ شخصیت ہے۔ کسی بھی نوعیت کا کام ہووہ بڑی آسانی سے کروالیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اس فن کے ماہر ہیں۔ آپ کا حافظہ اللہ کا دیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے۔
خالد سیف الدین صاحب اور ان کی تمام ٹیم کے ساتھ میرے وہ ۰۲/دن بڑی مصروفیت کے گزرے۔ یہاں سے خالد سیف الدین صاحب میرے لئے خالد بھائی بن گئے۔ خالد بھائی خود سے زیادہ اپنے ساتھیوں کے کھانے پینے نیزان کے آرام کا خیال رکھتے۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ خالد بھائی میرے جیب میں پیسے ڈال دیتے اور کہتے یکساں کام کرتے ہوئے تھک گئے ہو گے جاو باہر گھوم کر آؤ۔اس کے علاوہ جتنے بھی افراد اس وقت موجود تھے ہر وقت ان کی ہمت افزائی کرتے، ان کی تعریف کرتے جس سے ہر کوئی کام کی زیادتی سے پریشان نہیں ہوتا بلکہ وہ خالد بھائی کی باتوں اور ان کے اخلاق سے تازہ دم ہوجاتا۔ اور اپنا کام بڑی تندہی سے انجام دیتا۔ کسی بھی پروگرام کا انتظام کیسا ہونا چاہئے یہ میں نے خالد بھائی سے سیکھا۔ اسی کے ساتھ ان دنوں ہر وقت خالد سیف الدین صاحب کی نئی نئی شخصیت کے پہلو مجھ پر اجاگر ہونے لگے۔ پنج وقتہ نماز اور قرآن کی تلاوت ان کی زندگی کا معمول ہے۔ اور یوں مجھے زندگی میں سب سے بہترین و اعلی شخصیت سے ملنے کا موقع ملا۔ پربھنی کے اس اردو کاآنگن پروگرام سے میں خالد بھائی سے جڑچکا تھا۔ 
اس کے بعد پھر وقتاً فوقتاً اورنگ آباد میں خالد بھائی سے ملاقات ہوتی رہی۔ اپنی ملازمت کے دوران خالد بھائی سینکڑوں لوگوں کی مدد کرتے رہتے۔ ان ہی دنوں میرا چھوٹے بھائی جو کہ ایک بہترین کمپیوٹر آپریٹر ہے سے ان کی ملاقات ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ہے تو خالد بھائی نے انہیں اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن میں وقتی طورپر لگا دیا۔ ویسے جو بھی ضرورت مند خالد بھائی سے ملتا خالد بھائی اس کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے۔جب بھی مجھے کسی بھی قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا تو میں خالد بھائی سے اس کے تعلق سے مشورہ کرتا اور خالد بھائی اس مسئلہ کا حل بتا دیتے اور میری رہنمائی کرتے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں پربھنی سے اورنگ آباد جنرل ٹکٹ لے کر سفر کررہا ہوتا اور خالد بھائی سے ملاقات ہوتی وہ مجھے اپنے ساتھ فرسٹ کلاس اے۔سی میں ساتھ لے لیتے۔
عرصہ سے شہر اورنگ آباد میں علمی، تہذیبی، ثقافتی میدان میں جمود طاری تھا۔ ۷۲/ دسمبر۴۱۰۲ء تا ۴/ جنوری ۵۱۰۲ء سے اورنگ آباد میں اردو تہذیبی و ثقافتی کتاب میلہ خالد سیف الدین صاحب اور مرحوم خواجہ معین الدین صاحب نے منعقدکرواکر اس جمود کو توڑا۔ جس میں نا صرف مرہٹواڑہ بلکہ تمام مہاراشٹر سے اردو مدارس نے شرکت کی۔ اور اس میلے نے طلباء اور اردو ادب کے قارئین کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کروایا جس کے بعد ان میں ایک نئی جان پڑ گئی جو خالد بھائی کا مقصد تھا اوروہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ شہر اورنگ آباد میں اس طرح کی علمی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں شروع کرنے والی پہلی اور شاید آخری شخصیت خالد سیف الدین صاحب ہی ہے۔ جنہوں نے اس طرح کی تقریبات کا آغاز کرکے اورنگ آباد ہی نہیں بلکہ مہاراشٹر کے تمام اردو اسکولوں کو ایک جگہ لانے میں کامیابی حاصل کی۔ویسے تو آپ کے اس طرح کے ملی و فلاحی کاموں کو سراہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی بہت سے مقامی لوگوں کی تنقید کا وہ شکار بھی رہے ہیں۔جس کی انہوں نے کبھی پرواہ نہ کی۔ خالد بھائی واقعی فولاد جیسا جگر رکھنے والی شخصیت ہے جو ہر مسئلہ سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 
خالد بھائی کے ساتھ کام کے سلسلے میں جب بھی میں ان کے گھر پر دن دن بھر رہتا تو ہر دو گھنٹہ بعد کچھ نہ کچھ چائے معہ لوازمات پیش ہوتے اور دوپہر کا کھانا و رات کا کھانا تیار رہتا۔ یہ سب کرم فرمائی بھابھی جان کی ہوتی جو گھر آئے مہمانان کے لیے ہر وقت خوشی خوشی کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے تیار کرتی رہتیں۔میں جب بھی خالد بھائی کے ساتھ ہوتا تو میری اہلیہ کبھی فون کرکے یہ نہیں پوچھتی کہ’آپ نے کھانا کھایا ہے یا نہیں؟‘  انہیں پتہ ہے کہ میں خالد بھائی کے ساتھ ہوں۔
خالد سیف الدین صاحب ایک کنگ میکر، فرشتہ صفت انسان ہے۔میری نظر میں وہ اپنے آپ میں ایک یونیورسٹی و مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے ساتھ ہی جَوہرَِ قابل شخصیت بھی۔ یہ ایسے استاد ہے جن کے گُرو کُل میں اگر کسی کومحض ۲/سال کے لیے بھیج دیا جائے تو وہ ایک بہترین و با صلاحیت انسان بن کر لوٹے گا۔اس گُروکُل کا میں بھی ایک چھوٹا سا طالب علم ہوں۔ ان ہی سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔خالد سیف الدین صاحب کے تعلق سے میں صرف اتنا ہی کہوں گا    ؎
ان کا سایہ تجلّی، ان کا نقش پا چراغ
یہ جدھر گزرے ادھر ہی روشنی ہوتی گئی 
خالد بھائی کورونا جیسی وبا کا شکار ہوکر معالجہ کے لیے شریک دواخانہ ہوئے۔ ساتھ ہی ان کی شریک حیات بھی ان کے پیچھے شریک دواخانہ ہوئیں۔ بھابھی جان بھی وہ محترم شخصیت ہے جو خالد بھائی کے شانہ بہ شانہ ہر محاذ پر موجودرہتی ہیں۔ خالد بھائی نہ صرف میرے بھائی بڑے بلکہ میرے رہبر و رہنما بھی ہے۔ آج ان کی تکلیف اور پریشانی دیکھ کر میں ہی کیا ان کا ہر جاننے والا ان کے لئے اللہ رب العزت سے گڑ گڑا کر دعائیں کررہا ہے۔ اور ہم اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہے۔ اللہ غفور الرحیم ہے جو خالد سیف الدین صاحب اور ان کی اہلیہ کو جلد صحت یاب کرکے ہمارے درمیان بھیج دے گا۔ آمین ثم آمین۔
مجھے یقین ہے کہ اللہ انہیں بہت جلد بہترین صحت اور لمبی عمر سے سرفراز کرے گا۔اللہ رب العزت نے خالد بھائی کو قوم و ملت کے فلاحی و اصلاحی کاموں کے لیے منتخب کیا ہے اور انہیں ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ 

دعا گو :  سید اطہر احمد 
پرنسپل نعمت اردو اسکول وجونیئر کالج، خلد آباد،
ضلع اورنگ آباد (مہاراشٹر)۔ Call@9373193908
Email: sd.athar.ahmed@gmail.com 

……………………

2 comments:

  1. ماشاءاللہ بہترین خالص جذبات
    محبت و احترام سے لبریز تحریر ۔اللہ تعالیٰ خالد سیف الدین صاحب وان کے اہل خانہ کو امان میں رکھے اور ان کے بے لوث خدمات کا بہترین اجر عطا فرمائے۔

    ReplyDelete
  2. سبحان اللہ، بالکل بجا فرمایا، یقیناً اللہ رب العزت نے خالد صاحب کو اپنے چنندہ بندوں میں سے بنایا ہے

    ReplyDelete