Tuesday, August 30, 2022

قلم خط کتابیں

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
محترم احباب بزم محفل مشاعرہ میں نے جو تصویر پوسٹ کی تھی تصویر پر شعر کے عنوان پر اس کا اصل مقصد قلم تھا پھر بھی جو اشعار آئے ہیں قابل قبول ہے جس کا تبصرہ میں شعر کے ساتھ کرنے جارہا ہوں۔ میری پسند  سے ہر ایک کا متفق ہونا لازمی نہیں میرے انتخاب پر اختلاف ہو بھی سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
تو لیجیے پیش خدمت ہے تصویر پر شعر کا نتیجہ آپ اسے پڑھئے اور محظوظ ہوئیے۔
*اس نے دور رہنے کا مشورہ بھی لکھا ہے*
*ساتھ ہی محبت کا واسطہ بھی لکھا ہے*

*اس نے خط میں لکھا ہے  خط مجھے نہیں لکھنا*
*گھر کا فون نمبر بھی اور پتا بھی لکھا ہے*

*اس نے یہ بھی لکھا ہے میرے گھر نہیں آنا*
*اور صاف لفظوں میں راستہ بھی لکھا ہے*

*کچھ حروف لکھے ہیں ضبط کی نصیحت میں*
*کچھ حروف میں اس نے حوصلہ بھی لکھا ہے*

*شکریہ بھی لکھا ہے دل سے یاد کرنے کا*
*دل سے دل کا ہے کتنا فاصلہ بھی لکھا ہے*

*کیا اسے لکھیں انور  کیا اسے کہیں انور*
*جس نے بے مزہ کر کے ذائقہ بھی لکھا ہے*@⁨RAZEQ HUSSAIN Husain⁩ 

     🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹
1️⃣ *صفحۂ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم*
*ندرتِ افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم*
*وسیم راجا صاحب*
بھائی وسیم بھائی سچ میں قلم والے ہیں اور ان کی نظر بھی سب سے پہلے قلم پر ہی گئی اس لیے انعام اول کے آپ حقدار ہوئے۔
 
2️⃣ *علم انسان کو انسان بنا دیتا ہے*
*علم بےمایہ کو سلطان بنا دیتا ہے*
 *اللہ جسے دے اسے ایمان بھی دے*
*ورنہ یہ وہ ہے جو شیطان بنا دہتا ہے*
*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب*
تصویر کو جب دوسرے پہلو سے دیکھیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علم حاصل کرنے والوں میں عاجزی و انکساری ہو تو علم سلطان بناتا ہے اور اگر علم حاصل کرنے والوں میں غرور و تکبر اور انانیت آجائے تو وہ شیطان بنا دیتا ہے۔ ہمارے سامنے شیطان کی مثال موجود ہے۔ اللہ تعالٰی نے شیطان کے تکبر کو سورہ البقرہ سے لے کر سورۃ الکہف تک اور آگے بھی کہیں ذکر کیا کہ ہم نے شیطان  کو اور دیگر ملائکہ کو جب آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب نے سجدہ کیا بجز شیطان کے کیونکہ اس کو اپنے علم پر اور اپنے آگ سے پیدا ہونے پر غرور تھا۔ شیطان کے ایک انکار نے اسے ملعون قرار دیا ہم اللہ کے دن بھر میں سے نہ جانے کتنے احکامات کا انکار کرتے ہیں۔ ساتھیوں ہمارا اصل نصاب قرآن ہے اس پر ہمیں دھیان دینے کی ضرورت ہے ہم تمام کو اللہ کے احکامات کی حکم عدولی سے اللہ محفوظ رکھے۔ *حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب* بہت بہت مبارک آپ کے اس شعر نے ہمیں قرآن کی تعظیم اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دینے والا بنایا اور ہمیں یہ بھی تعلیم ملی کہ علم سے انکساری آتی ہے۔ اور انکساری والے ہی کامیاب ہوں گے۔

3️⃣*ہماری زندگی میں پھول بن کر کوئی آیا تھا*
*اس کی یاد میں اب تک یہ تحریریں مہکتی ہیں*
*کھو گئے ہیں کہیں اپنے تعاقب میں*
*مل سکے خود سے تو اک روز ملائیں گے تمہیں* 
کیا بات ہے کیا بات ہے بہت خوب فہیم باجی آج *سید عبدالستار سر* نے اس بات کو قبول کرلیئے بھابی کو بتا سکتی ہو آپ۔ عبدالستار ان تحریروں کی مہک ہر بدھ کو ہم بھی محسوس کر لیتے ہیں مگر بدھ اور جمعرات میں ۸ تا ۱۰ کلاس رہتی جس کی وجہ سے میں شریک مقابلہ نہیں ہو پا رہا ہوں دوسری اور کوئی وجہ نہیں آئندہ مقابلوں میں ان ایام میرے شعر پوسٹ کرنے کی ذمہ داری کسی کو دے دوں گا کہ وہ وقت پر میرے نام سے اشعار پوسٹ کر دے یا آپ کو انفرادی بھیج دوں گا آپ نے وقت رہتے شریک مقابلہ کر لینا۔ دوسرے والے شعر میں قبول کرلیئے کہ مہک میں کھو گئے ہاں۔
*قلم میں زور جتنا ہے جدائی کی بدولت ہے*
*ملن کے بعد لکھنے والے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں*
ثنا ثروت صاحبہ 
*الفاظ نہ آ پائے تحریر کی منزل تک*
*بیٹھا ہوں لیے کب سے ہاتھوں میں قلم* 
سید وقار احمد سر 
  🥈🥈 *انعام دوم*🥈🥈
1️⃣*ایک مدت سے انہیں روز پڑھا کرتا ہوں*
*جن بیاضوں میں عبارت نہیں لکھی تو نے*

*ڈاکٹر ندیم ابن منشاء* صاحب District health officer تھے منشاء الرحمن منشاء کے فرزند ارجمند ہیں میری ملاقات اورنگ آباد میرے بڑے بھائی کی شادی میں ہوئی تھی اس 2007 میں آج تک دل سے دل کا رشتہ قائم ہے ناگپور سے آنے والے ہر شخص سے میں آپ کی خیریت دریافت کرتے رہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بہت عمدہ شعر کہا ماشاءاللہ 


3️⃣ *یوں تو لکھنے کے لیے کیا نہیں لکھا میں نے* 
*پھر بھی جیتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے*
اللہ حبیب بھائی کی مغفرت فرمائے فرحت باجی آپ کی جوڑی one of the most beautiful جوڑی تھی۔ آپ کے لکھنے کی ضرورت نہیں تھی حبیب بھائی سمجھتے تھے اس بات کو۔ 
قلم گوئد کہ من شاہ جہانم 
قلم کش  را بدولت می رسانم
*مرسلہ عبداللہ خان ممبئی*
🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉
1️⃣ *لفظ چھن جائیں مگر تحریر ہو روشن جہاں*
*ہونٹ ہوں خاموش لیکن گفتگو باقی رہے*
*و*
*یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں* 

*اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں* 

جاں نثاراختر کے اس شعر کو فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ نے اپنے دل بھلائی کا ذریعہ بنایا ہے کیونکہ ان کا چھوٹا بیٹا جو بہت لاڑ کا ہے وہ آندھرا میں میڈیکل کی پڑھائی کر رہا ہے اور باجی کتابوں رسالوں سے سودا کیے بیٹھے ہیں ویسے عمران عالم صاحب بھی ان کا ساتھ دیتے مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔😁

2️⃣ *اسے پڑھ کے تم نا سمجھ سکے کہ میری کتاب کے روپ میں*
*کوئی قرض تھا کئی روز کا کئی رتجگوں کا ادھار تھا*

*کیسے تحریر کر پاؤں گی آج احوال اپنا*
*لفظ افسردہ سے، ذہن الجھا سا اور لہجہ بیزار سا*

اب آپ ایم فیل کر رہے ہو پھر پی ایچ ڈی کروں گی تو ظاہر ہے *ہما* کتاب آپ لکھو گی اور وہ کتاب بہت موٹی بھی ہوں گی تو اس کو سمجھنے وقت تو لگے گا رتجگوں کا کیا وہ اچھے کاموں میں ہوتے رہتے ہیں۔   دوسرے شعر میں یہ اثر رتجگوں کی وجہ سے طاری ہورہا ہے کبھی آرام بھی کر لیا کروں دنیا والے مارنے تک مچھر کی طرح خون چوستے رہتے سب اپنا لہجہ سنبھال کر رکھنا لہجوں کی وجہ سے لوگ ٹوٹتے اور جوڑتے ہیں۔😊



3️⃣ *یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال*
*متاع   جاں   ہیں   تیرے   قول   اور قسم کی طرح*
 
*گزشتہ   سال   انھیں   میں   نے   گن   کے رکھا تھا* 
*کسی   غریب   کی   جوڑی   ہوئی   رقم کی طرح*
 اللہ آپ کے خواب و خیال کو حقیقی پورپ عطا کرے *خان گوہر نایاب* اور بہترین شریک حیات عطا کرے اس گروپ کی خاصیت کیا ہے معلوم couples بہت اچھے ہیں سب کے عمران بھائی فہیم باجی فوزیہ باجی ان کے شوہر رازق ان کی اہلیہ اشرف سے ان کی جوڑی کوثر حیات صاحبہ و اطہر بھائی فرحت باجی حبیب بھائی عبدالستار سر انکی اہلیہ بس میں دعا کرتا ہوں ہمارے گروپ کے جتنے کنوارے ہیں اللہ ان کی جوڑی جلد سے جلد ان سے  ملا دے اور انھیں خوش و خرم رکھ۔ شادیوں کے رقعہ گروپ پر پوسٹ کردیا کرے تاکہ جن کی شادی ہوجائے ان کا علم ہو ورنہ ہم انھیں دعاؤں میں یاد رکھے گے ان کی دوسری تیسری ہوتے رہے گی۔ اشرف سر پڑھ کر خوش مت ہو آپ کی شادی کا علم سب کو ہے۔ 
کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے
*ثنا ثروت صاحبہ*

*کبھی کتابوں میں پھول رکھنا* *کبھی درختوں پر نام لکھنا*
*ہمیں بھی ہے آج تک وہ نظر سے* *حرف سلام کرنا*
بشری اچھا ہے حرف سلام
 
❤️❤️ *جج کی پسند کے اشعار* ❤️❤️



*دل    ڈھونڈتا    ہے   پھر   وہی   فرصت  کے  رات دن* 
*بیٹھے        رہے       تصورِ       جاناں         کئے     ہوئے*
شکیب الحسن سر دل کو کیا ہوا ایک ہی شعر پر آپ نے بس کیا۔

*صدیوں لہو سے دل کی حکایت لکھی گئی* 
*میری وفا گئی نہ تری بے رخی گئی*
آج کل کے لوگ ایسے ہو گئے ہیں کیا کر سکتے *قاضی فوزیہ انجم باجی* مگر بھائی جان ایسے نہیں ہے ہاں بہت اچھے انسان ہے  


*تیری یادوں کے راستے کی طرف*
*اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں*

*دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر*
*اب تیرے خط نہیں پڑھوں گا میں*

*بھائی عبدالرازق حسین* یہ جون ایلیا کو کوئی کام دھندا نہیں تھا خطوط پر بہت شعر کہے انھوں نے۔ بہت اچھا شعر ہے انتخاب آپ کا بہت اچھا ہے
*برسوں سے کان پر ہے قلم اس امید پر*
*لکھوائے مجھ سے خط مرے خط کے جواب میں*
حسرت دل نامکمل ہے کتاب زندگی
جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ
آمین


*ڈاکٹر جواد احمد صاحب*
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتب تقدیر کوئی اور
فوزیہ باجی

*خان محمد یاسر* 
خادم 
بزم محفل مشاعرہ

Saturday, August 27, 2022

ماں


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
محترم احباب بزم محفل مشاعرہ 14 اگست 2022 کو ایک تصویر دی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ایک معصوم بچہ جنازے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور یہ شاید وہ جنازہ اس کے ماں کا یا باپ کا ہوسکتا ہے۔ 
دنیا یہی سوچتی ہے کہ کیا شئے ہے ماں ۔ سچائی کا پیکر ہے ماں ، لازوال محبت کا نمونہ ہے ماں، شفقت کا سمندر ہے ماں، تڑپ کا دریا ہے ماں ، قربانی کا سیلاب ہے ماں، مہربانی کا خزانہ ہے ماں۔۔ تین حرفوں کا لفظ 'ماں'ناقابل فراموش رشتہ ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔
دنیا میں ماں کے رشتہ کو ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور الفاظ میں بیان کرتا ہے۔کوئی جذباتی ہوکر بیان کرتا ہے اس رشتہ کو،کوئی بغیرایک لفظ ادا کئےآنکھوں سے بیان کر دیا ہے ماں کی قدرکو،کسی نے کہا کہ ماں کی محبت ہمالیہ کا وہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلندیوں کو آج تک کوئی چھو نہ سکا ۔کسی نے کہا کہ ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی، کسی کا کہنا ہے کہ کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔
ماں بڑا پیارا لفظ ہے جسے انسان اپنے دل کی گہرایوں سے اداکرتا ہے۔بچپن سے لیکر عمر کے ہر مرحلے میں وہ ماں کی ممتاکا محتاج رہتا ہے۔اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے اسی سے توقع رکھتا ہے۔ماں کے بغیر گھر سنسان اور زندگی ویران ہوتی ہے۔ برکت کا راستہ ماں باپ کی خدمت سے ہی آسان ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ۔۔اللہ تعالی قُرآن پاک میں فرماتے ہیں : ترجمہ- تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے (فرض کر دیا ہے) کہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔
  باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے دن رات محنت کرتا رہتا ہے۔ نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے صحت کی۔ وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں صرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں۔ اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔ مگر آج اخلاقیات کی تعلیم کی کمی کی وجہ سے والدین کی قدر اولاد کی نظروں میں کم ہوگئی ہے وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں انگریزی تعلیم نے ادب سے اور اخلاقی تعلیم سے دور بہت دور کر دیا ہے۔ ہم اس عنوان کے لیکر بیٹھ جائے تو بہت کچھ لکھ سکتے اور بول سکتے مگر یہاں موقع نہیں۔ چلئے دیکھتے ہیں آج کے نتیجے کیا نصیحت کرتے ہیں اور اپنا مقام بناتے ہیں۔
اس سے پہلے مسعود رانا صاحب کی اس غزل کو پھر ایک بار ضرور پڑھ لیجیے
موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں​

موت کی آغوش میں بھی کب سکوں پاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچے تڑپ جاتی ہے ماں​

جاتے جاتے پھر گلے بچے سے ملنے کے لئے
توڑ کر بند کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں​

روح کے رشتوں کی یہ گھرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں​

بھوکا سونے ہی نہیں دیتی یتیموں کو کبھی
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں​

ہڈیوں کا رس پلاکر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سوجاتی ہے ماں​

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسووں کے ساز پر بچے کو بھلاتی ہے ماں​

ماردیتی ہے طمانچہ گر کبھی جذبات میں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں​

کب ضرورت ہو مِری بچے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سوجاتی ہے ماں​

گھر سے جب پردیس کو جاتا ہے گودی کا پلا
ہاتھ میں قرآں لئے آگن میں آجاتی ہے ماں​

دیکے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں​

لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر باہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں​

ایسا لگتاہے کہ جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں​

دیر ہوجاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں​

مرتے دم بچہ نہ آئے گھر اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں​

حال دل جاکر سنا دیتا ہے معصومہ کو وہ
جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں

تھام کر روضے کی جالی جب تڑپتاہے کوئی
ایسا لگتاہے کہ جیسے سر کو سھلاتی ہے ماں​

گمرہی کی گرد جم جائے نہ میرے چاند پر
بارش ایمان میں یوں ہرروز نھلاتی ہے ماں​

اپنے پہلو میں لٹاکر روز طوطے کی طرح
ایک بارہ پانچ چودہ ہم کو رٹواتی ہے ماں​

عمر بھر غافل نہ ہونا ماتم شبیر سے
رات دن اپنے عمل سے ہم کو سجمھاتی ہے ماں​

دوڑ کر بچے لپٹ جاتے ہیں اس رومال سے
لےکے مجلس سے تبرک گھر میں جب آتی ہے ماں​

یاد آتا ہے شب عاشور کا کڑیل جواں
جب کبھی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتی ہے ماں​

اللہ اللہ اتحاد صبر لیلا اور حسین
باپ نے کھینچی سناں سینے کو سہلاتی ہے ماں​

سامنے آنکھوں کے نکلے گر جواں بیٹے کا دم
زندگی بھر سر کو دیواروں سےٹکراتی ہے ماں​

سب سے پہلے جان دینا فاطمہ کے لال پر
رات بھر عون ومحمد سے یہ فرماتی ہے ماں​

یہ بتا سکتی ہے بس ہم کو رباب خستہ تن
کس طرح بن دودھ کے بچے کو بھلاتی ہے ماں​

شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھئے
ماں ادھر منھ سے نکلتاہے ادہر آتی ہے ماں​

اپنے غم کو بھول کر روتے ہیں جو شبیر کو
ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں​

باپ سے بچے بچھڑجائیں اگر پردیس میں
کربلا سے ڈھونڈنے کوفے میں خود آتی ہے ماں​

جب تلک یہ ہاتھ ہیں ہمشیر بے پردہ نہ ہو
ایک بہادر باوفا بیٹے سے فرماتی ہے ماں​

جب رسن بستہ گزرتی ہے کسی بازار سے
ایک آوارہ وطن بیٹی کو یاد آتی ہے ماں​

شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں​


   🌹🌹   *اعزازی انعام* 🌹🌹

تجھ سا ملے گا ماں نہ کوئی معتبر مجھے
رہنے دے زیر پا تو یوں ہی عمر بھر مجھے
*آفرین خان*

اس دل سے تیری یاد کے ہالے نہیں گئے
تو جا چکاہے تیری یاد کےاجالے نہیں گئے
*مرسلہ عبداللہ خان ممبئی*
دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
*محترمہ فریسہ جبین باجی*

ہر روز ماں کے چہرے کو تکتا تھا پیار سے‫
ہر روز حج میں کرتا تھا احرام کے بغیر
*عالیجناب سید عبدالستار سر*

 1️⃣1️⃣  *انعام اول* 1️⃣1️⃣
اے فردوس تیری عظمت کی عقیدت کا  مقام  اپنی  جاہ

ھم نے تو تیری اوقات کو فقط ماں کے قدموں تلے دیکھا
*محترمہ فریسہ جبین باجی*

‏ماں کے ہنستے..!ہوئے چہرے کا بھرم ہے ورنہ..!
زندگی یوں..! تو نہیں ہے کہ گزاری جائے..
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*

ممتا کی تعریف نہ پوچھو
چڑیا سانپ سے لڑ جاتی ہے
*ثنا ثروت صاحبہ*
🥈🥈  *انعام دوم* 🥈🥈
ستارے جیسی روشن ہیں۔ میری پیشانی اب
جب سے میری ماں نے اسے چوما ہے
*ڈاکٹر نسرین سلطانہ صاحبہ*
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابی
سُنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چُبھتے
*فہیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

وہ اکثر خواب میں آکر میری حالت پہ روتی ہے
کہ زیر خاک بھی ماں کی پریشانی نہیں جاتی
*گوہر نایاب خان*
🥉🥉  *انعام سوم* 🥉🥉
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
*محترمہ قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*

بس ایک ماں کی محبت دکھائی دیتی ہے
زمیں پہ ایک ہی عورت دکھائی دیتی ہے

اے بوڑھی ماں تیرے چہرے کی جھریوں کی قسم
ہر اک لکیر میں جنّت دکھائی دیتی ہے
*مسعود رانا صاحب*

سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا
*محترم وسیم راجا صاحب*