محترم احباب بزم محفل مشاعرہ 14 اگست 2022 کو ایک تصویر دی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ایک معصوم بچہ جنازے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور یہ شاید وہ جنازہ اس کے ماں کا یا باپ کا ہوسکتا ہے۔
دنیا یہی سوچتی ہے کہ کیا شئے ہے ماں ۔ سچائی کا پیکر ہے ماں ، لازوال محبت کا نمونہ ہے ماں، شفقت کا سمندر ہے ماں، تڑپ کا دریا ہے ماں ، قربانی کا سیلاب ہے ماں، مہربانی کا خزانہ ہے ماں۔۔ تین حرفوں کا لفظ 'ماں'ناقابل فراموش رشتہ ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔
دنیا میں ماں کے رشتہ کو ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور الفاظ میں بیان کرتا ہے۔کوئی جذباتی ہوکر بیان کرتا ہے اس رشتہ کو،کوئی بغیرایک لفظ ادا کئےآنکھوں سے بیان کر دیا ہے ماں کی قدرکو،کسی نے کہا کہ ماں کی محبت ہمالیہ کا وہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلندیوں کو آج تک کوئی چھو نہ سکا ۔کسی نے کہا کہ ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی، کسی کا کہنا ہے کہ کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔
ماں بڑا پیارا لفظ ہے جسے انسان اپنے دل کی گہرایوں سے اداکرتا ہے۔بچپن سے لیکر عمر کے ہر مرحلے میں وہ ماں کی ممتاکا محتاج رہتا ہے۔اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے اسی سے توقع رکھتا ہے۔ماں کے بغیر گھر سنسان اور زندگی ویران ہوتی ہے۔ برکت کا راستہ ماں باپ کی خدمت سے ہی آسان ہوتا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ ۔۔اللہ تعالی قُرآن پاک میں فرماتے ہیں : ترجمہ- تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے (فرض کر دیا ہے) کہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔
باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے دن رات محنت کرتا رہتا ہے۔ نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے صحت کی۔ وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں صرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں۔ اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔ مگر آج اخلاقیات کی تعلیم کی کمی کی وجہ سے والدین کی قدر اولاد کی نظروں میں کم ہوگئی ہے وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں انگریزی تعلیم نے ادب سے اور اخلاقی تعلیم سے دور بہت دور کر دیا ہے۔ ہم اس عنوان کے لیکر بیٹھ جائے تو بہت کچھ لکھ سکتے اور بول سکتے مگر یہاں موقع نہیں۔ چلئے دیکھتے ہیں آج کے نتیجے کیا نصیحت کرتے ہیں اور اپنا مقام بناتے ہیں۔
اس سے پہلے مسعود رانا صاحب کی اس غزل کو پھر ایک بار ضرور پڑھ لیجیے
موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں
موت کی آغوش میں بھی کب سکوں پاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچے تڑپ جاتی ہے ماں
جاتے جاتے پھر گلے بچے سے ملنے کے لئے
توڑ کر بند کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں
روح کے رشتوں کی یہ گھرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں
بھوکا سونے ہی نہیں دیتی یتیموں کو کبھی
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں
ہڈیوں کا رس پلاکر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سوجاتی ہے ماں
جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسووں کے ساز پر بچے کو بھلاتی ہے ماں
ماردیتی ہے طمانچہ گر کبھی جذبات میں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں
کب ضرورت ہو مِری بچے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سوجاتی ہے ماں
گھر سے جب پردیس کو جاتا ہے گودی کا پلا
ہاتھ میں قرآں لئے آگن میں آجاتی ہے ماں
دیکے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں
لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر باہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں
ایسا لگتاہے کہ جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں
دیر ہوجاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں
مرتے دم بچہ نہ آئے گھر اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں
حال دل جاکر سنا دیتا ہے معصومہ کو وہ
جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں
تھام کر روضے کی جالی جب تڑپتاہے کوئی
ایسا لگتاہے کہ جیسے سر کو سھلاتی ہے ماں
گمرہی کی گرد جم جائے نہ میرے چاند پر
بارش ایمان میں یوں ہرروز نھلاتی ہے ماں
اپنے پہلو میں لٹاکر روز طوطے کی طرح
ایک بارہ پانچ چودہ ہم کو رٹواتی ہے ماں
عمر بھر غافل نہ ہونا ماتم شبیر سے
رات دن اپنے عمل سے ہم کو سجمھاتی ہے ماں
دوڑ کر بچے لپٹ جاتے ہیں اس رومال سے
لےکے مجلس سے تبرک گھر میں جب آتی ہے ماں
یاد آتا ہے شب عاشور کا کڑیل جواں
جب کبھی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتی ہے ماں
اللہ اللہ اتحاد صبر لیلا اور حسین
باپ نے کھینچی سناں سینے کو سہلاتی ہے ماں
سامنے آنکھوں کے نکلے گر جواں بیٹے کا دم
زندگی بھر سر کو دیواروں سےٹکراتی ہے ماں
سب سے پہلے جان دینا فاطمہ کے لال پر
رات بھر عون ومحمد سے یہ فرماتی ہے ماں
یہ بتا سکتی ہے بس ہم کو رباب خستہ تن
کس طرح بن دودھ کے بچے کو بھلاتی ہے ماں
شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھئے
ماں ادھر منھ سے نکلتاہے ادہر آتی ہے ماں
اپنے غم کو بھول کر روتے ہیں جو شبیر کو
ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں
باپ سے بچے بچھڑجائیں اگر پردیس میں
کربلا سے ڈھونڈنے کوفے میں خود آتی ہے ماں
جب تلک یہ ہاتھ ہیں ہمشیر بے پردہ نہ ہو
ایک بہادر باوفا بیٹے سے فرماتی ہے ماں
جب رسن بستہ گزرتی ہے کسی بازار سے
ایک آوارہ وطن بیٹی کو یاد آتی ہے ماں
شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں
🌹🌹 *اعزازی انعام* 🌹🌹
تجھ سا ملے گا ماں نہ کوئی معتبر مجھے
رہنے دے زیر پا تو یوں ہی عمر بھر مجھے
*آفرین خان*
اس دل سے تیری یاد کے ہالے نہیں گئے
تو جا چکاہے تیری یاد کےاجالے نہیں گئے
*مرسلہ عبداللہ خان ممبئی*
دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
*محترمہ فریسہ جبین باجی*
ہر روز ماں کے چہرے کو تکتا تھا پیار سے
ہر روز حج میں کرتا تھا احرام کے بغیر
*عالیجناب سید عبدالستار سر*
1️⃣1️⃣ *انعام اول* 1️⃣1️⃣
اے فردوس تیری عظمت کی عقیدت کا مقام اپنی جاہ
ھم نے تو تیری اوقات کو فقط ماں کے قدموں تلے دیکھا
*محترمہ فریسہ جبین باجی*
ماں کے ہنستے..!ہوئے چہرے کا بھرم ہے ورنہ..!
زندگی یوں..! تو نہیں ہے کہ گزاری جائے..
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*
ممتا کی تعریف نہ پوچھو
چڑیا سانپ سے لڑ جاتی ہے
*ثنا ثروت صاحبہ*
🥈🥈 *انعام دوم* 🥈🥈
ستارے جیسی روشن ہیں۔ میری پیشانی اب
جب سے میری ماں نے اسے چوما ہے
*ڈاکٹر نسرین سلطانہ صاحبہ*
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابی
سُنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چُبھتے
*فہیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*
وہ اکثر خواب میں آکر میری حالت پہ روتی ہے
کہ زیر خاک بھی ماں کی پریشانی نہیں جاتی
*گوہر نایاب خان*
🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
*محترمہ قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*
بس ایک ماں کی محبت دکھائی دیتی ہے
زمیں پہ ایک ہی عورت دکھائی دیتی ہے
اے بوڑھی ماں تیرے چہرے کی جھریوں کی قسم
ہر اک لکیر میں جنّت دکھائی دیتی ہے
*مسعود رانا صاحب*
سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا
*محترم وسیم راجا صاحب*
No comments:
Post a Comment