Sunday, October 11, 2020

چاندنی ‏رات

آج بتاریخ ۱۱ اکتوبر ۲۰۲۰ بروز اتوار کے تصویر پر شعر عنوان پر ایک تصویر شعر کہنے یا پوسٹ کرنے کے لیے دی تھی جس کو مدنظر رکھ کر احباب اراکین محفل مشاعرہ نے ایک سے بڑھ کر ایک شعر ارسال کیئے میں آپ کے ذوق اور عنوان کے تحت دیوانگی دیکھ کر ششدر رہ گیا ہوں کہ آپ کی سوچوں پر کسی کا پہرہ نہیں چلتا آپ اپنی مثال خود ہو آپ تمام میں ایک کائنات سمائی ہوئی ہے ۔
ویسے تو لفظ ہمارے ارد گرد بکھرے ہوتے ہیں، ہر کوئی انھیں اپنے حساب سے حسب ِ ضرورت استعمال کرتا ہے۔ شاعری الفاظ کی ایسی ترتیب ہے جو لکھنے والے کے محسوسات کوایسے پیرائے میں تصویر کرتی ہے کہ پڑھنے والا اُس میں اپنے منظر دیکھنے لگتا ہے۔ محبت، ایسا جذبہ جس پر نجانے کب سے لکھا جا رہا ہے اور نجانے کب تک لکھا جاتا رہے گا۔ اس کے تمام شیڈز کو مختلف انداز سے بیان کیا جاتا رہا ہے اور آگے بھی بیان کیا جاتا رہے گا۔ ہجر و وصال کی اس الف لیلوی داستان میں قصہ گو ہر دور میں جڑتے رہے ہیں ۔ بس آپ کا کام ان شیڈز کو محفل میں پیش کرنا ہوتا اور آپ اتنے اہتمام سے اسے پیش کرتے ہیں جس کی تعریف کرنے کے لیے میرے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ 
آج میں نے جو تصویر دی تھی اس تصویر کے چاند کو کسی نے اپنی تنہائی سے بیان کیا تو کسی نے اس کی روشنی کی کھل کر تعریف کی اور ہاں مجال ہو گھڑی کی سیکنڈ کا کانٹا ادھر دیر سے سرک جائے مگر اشعار کی بھرمار وقت پر ہوتی ہے اب آج کا واقعہ لے لیجیئے گیارہ بجے نہیں تھے کہ حافظ ابراہیم محمودی صاحب  نے ۵ اشعار ارسال کردیئے جس چاندنی کی کھل کر تعریف کی اور چاند نگر کے باسیوں کے انتظار کو واضح کردیا۔
اور آخر میں بہت خوب کہا جو مجھے بہت پسند آیا کہ
رات کا ہر اک منظر رنجشوں سے بوجھل تھا 
چاند بھی ادھورا تھا میں بھی نامکمل تھا
دور تو نہ تھا اتنا خیمہ اس کے خوابوں کا
راستے میں اپنی ہی خواہشوں کا جنگل تھا
ابھی میں نے پہلا مصرعہ پڑھا ہی تھا کہ فوزیہ باجی صاحبہ نے اپنا شعر بھیج دیا جس میں لکھا 
 *چنچل مُسکاتی مُسکاتی گوری کا مُکھڑا مہتاب* 
 *پت جھڑ کے پیڑوں میں اٹکا، پیلا سا اِک پتہ چاند*            (  ابنِ انشاء )    واہ باجی بہت خوبصورت شعر کہا آپ نے خیر باتیں ہوتے رہے گی ۔
فرحت باجی  کافی دنوں بعد آپ کے اشعار موصول ہوئے پہلا شعر میرے حبیب کے تعلق سے ہے کہ
 *آج سمجھا ہوں میں تیرے رخ تاباں کا سبب*   
 *تجھ کو اے چاند  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہوگا*  
اس شعر پر ایک واقعہ یاد آیا حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہے کہ ایک مرتبہ چودھویں کی رات تھی اور چاند بڑے آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اس چاندنی رات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک پر ایک چادر تھی جس میں سرخ اور سفید دھاریاں تھیں آپ اس میں بہت حسین لگ رہے تھے میں کبھی چاند کو دیکھتی کبھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر میں نے فیصلہ کیا کہ چاند میں داغ ہے میرے نبی بے عیب ہے آپ کی انگلی کے اشارے سے چاند کے دو ٹکڑے ہوگئے تھے یہ آپ کا معجزہ تھا اور اللہ تبارک و تعالی نے بھی سورۃالضحی میں آپ کی خوبصورتی کی قسمیں کھائی ہے سچ ہے ہمارے آقا تمام عالم میں حسین تھے اور بلند اخلاق والے بھی جب جنتیوں کو جنت میں بھیجا جائے گا اس وقت کچھ خصوصی انعامات بھی عطا ہوگے اس میں سے پانچ کا میں ذکر کردیتا ہوں 
۱۔ حضرت آدم کا قد عطا ہوگا
۲۔ عیسی علیہ السلام کی عمر ملے گی۔
۳۔ یوسف علیہ السلام کا حسن ملے گا۔
۴۔ ایوب علیہ السلام کا صبر اور
۵۔حضرت کے اخلاق والی صفت عطا ہوگی۔
فرحت باجی آپ کے شعر نے بات کو بہت لمبی کردیا تمام ترسیلات عمدہ ہیں۔
سیدہ سلمی نے دل کو چھو جانے والا شعر بھیجا کہ
 *ہے میری اور چاند کی کہانی ایک سی*                                                                                                                                                                         *وہ بادلوں میں تنہا میں اپنوں میں تنہا*                                                                                               ن۔م                     ۔                                                                                                  
تصویر کی صحیح معنی میں عکاسی کرتا ہو یہ شعر جو اپنی تنہائی کا گلا نہیں کررہا ہے بلکہ اپنے حوصلوں کو بیان کر رہا ہے 

 *شام پیڑ  تنہائی اداسی خاموش راستے*                                                                                         *میں اکیلا کہاں سب میرے ساتھ ہی تو ہیں*                                          کاںٔنات  بشیر
بہترین انتخاب ہے محترمہ آپ کا داد تحسین پیش کر نے کے لیے الفاظ کم پڑ رہے ہیں
خان گوہر نایاب نے وسیم بریلوی کا یہ شعر کا انتخاب کرکے یہ بتا دیا کہ موقعہ کا فائدہ کیسے اٹھایا جاتا ہے وہ کہتی ہے کہ
 *تم آگئےہو تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں*
 *زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے*
پھر یہ گلا بھی کردیا کہ
 *کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت*
 *جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے*
عقیل سر کی انٹری بھی اچھی رہی آپ نے شفق کو اپنا متن بنا کر اشعار ارسال کیئے اور کاظم حسین کے اس شعر سے ابتدا کی کہ
 *یہ شام،جھیل،شفق معتبر اپنی جگہ* 
 *میرا مزاج ذرا مختلف ہے تینوں سے*
فھیم باجی سنیچر کا رزلٹ بناتے بناتے چاند کے اس پار دیکھ رہے تھے 
 *چاندنی رات میں خوابوں کا دریچہ پاکر* 
 *میں نےدیکھاہےتجھےچاندکے اس پاربہت*

 *تنہا خاموش رات اور گفتگو کی آرزو* 
 *ہم کس سےکریں بات کوئی بولتانہیں*
واہ باجی بہت خوبصورت شعر پوسٹ کیا آپ نے 
شیخ نعیم صاحب آپ کل غیر حاضری بہت ہو رہی ہے کیا بات ہے کون سے آسمان پر گھر بنالیا ہے آپ نے چاند کو دیکھنے کے لیے
 *فلک پہ چاند ستارے نکتے ہیں ہر شب* 
 *ستم یہی ہے نکلتا نہیں ہمارا چاند*
آپ کا انتخاب بھی کافی اچھا ہے تمام ترسیلات بہترین ہیں۔
یہ شعر جس غزل کا ہے اس غزل کو غلام علی کی آواز میں بہت سنتا ہوں یہ شعر میرا پسندیدہ ہے
 *کل چودھویں کی رات تھی شب بھررہاچرچہ تیرا* 
 *کچھ نےکہایہ چاند ہے کچھ نےکہا چہرہ تیرا* 
فھیم باجی شکریہ ابن انشاء کے اس مصرعہ کے لیے
شکیب بھائی کیوں لوٹ کر جانا چاہتے ہو یہ منظر تو وہیں ٹھہرنے کے لیے ہے ویسے انتخاب اچھا ہے ابھی ایسے ماحول میں تنھا وقت گزار کر دیکھا کرو
 *آؤ  اب لوٹ چلیں  شام  سے  پہلے پہلے* 
 *ڈھلتے  سورج نے اشارہ  کیا گھر جانے کا*
آج عبدالستار سر نے اتنی دلچسپی نہیں دکھائی بس سراسری اشعار پوسٹ کردیئے
 *راجہ بھی لاجواب تھا صحرائے عشق کا* 
 *لیکن دیار حسن کی رانی غضب کی تھی*
اس حسین پس منظر میں رانی کو کہاں سے لے آئے آپ ستار سر
عالیہ باجی کہاں مصروف تھے تنویر میڈم نے سنڈے کا ہوم ورک تو نہیں دیا تھا نہ کافی دیر کردی مہرباں آتے آتے
 *ہجر کی رات اور پورا چاند* 
 *کس قدر ہے یہ اہتمام غلط* 
اچھا انتخاب 👌
فرحت شیخ پہلا شعر بہت اچھا لگا 
 *پار دریائے محبت سے اترنا ہے محال* 
 *تم لگاؤ گے کنارے تو کنارے ہوں گے*
سید نسیم الدین سر یہ شعر آپ کو زیادہ پسندیدہ دکھ رہا ہے پچھلی دفعہ کسی مقابلے کے ابتدائی کلمات میں بھی اس شعر کو آپ نے استعمال کیا تھا اور اس بات کی گواہی آپ کے دوست شکیب سر بھی دے گے
 

 *خود نئی راہیں بنانا خوب آتا ھے ہمیں* 
 *ہم کسی تالاب کا ٹہرا ھوا پانی نہیں* 
ستار سر یہ تم بن فلم کی غزل جسےجگجیت سنگھ نے گایا تھا میرا پسندیدہ غزل ہے آپ کی اس پسند کا شکریہ
تم بن جیا جائے کیسے 
کیسے جیا جائے تم بن
صدیوں سے لمبی ہوئی راتیں
صدیوں سے لمبے ہوئے دن 
آجاو لوٹ کر تم 
یہ دل کہہ رہا ہے 
پھر شام تنہائی جاگی
پھر یاد تم آ رہے ہو
پھر جان نکلنے لگی ہے 
پھر مجھ کو تم تڑپا رہے ہو 
اس دل میں یادوں کے میلے ہیں 
تم بن ہم بہت اکیلے ہے
آجاو لوٹ کر تم 
یہ دل کہہ رہا ہے 
کیا کیا نہ سوچا تھا میں نے
کیا کیا نہ چاہا تھا میں نے 
کیا کیا  نہ ارمان جگائے 
اس دل سے طوفان گزرتے ہیں 
تم بن نہ جیتے نہ مرتے ہیں 
آجاو لوٹ کر تم 
یہ دل کہہ رہا ہے
اشرف سر آپ کی منظر کشی کی داد دیتا ہوں آپ کا شوق عمدہ ہے اور اپنی مزاج کے مطابق شعر بھیجا آپ نے
 *جیسا منظر ملے گوارا کر* 
 *تبصرے چھوڑ دے نظاراکر*
*اب تو جینے کی آرزو بھی نہیں*
*چارہ گر اب تو کوئی چارا کر*
شیخ نسرین رسول صاحبہ نے اچھا شعر پوسٹ کیا
 *منظر روز بدل دیتا ہوں اپنی نرم خیالی سے* 
 *شام شفق میں ڈھل جاتی ہے رنگ حنا کی لالی سے* 

سوچ اچھی ہے ماشاء اللہ 

 *خیال حسن میں یوں زندگی تمام ہوئی* 
 *حسین صبح ہوئی اور حسین شام ہوئی* 

شکیب انصاری سر یہ شعر بھی اچھا ہے

 *کہاں   تلک   وہ    میرے   ساتھ   ساتھ آئے   گا* 
 *جہاں  بھی  ڈھل  گیا سورج وہ چھوڑ جائے گا* 

 *آج کا انعام اول* 
محمد اشرف سر کا یہ شعر ہے

مُجھے زندگی میں قدم قدم، تیری رضا کی تلاش ہے۔۔۔

تیرے عشق میں اے میرے اللہ مُجھے انتہا کی تلاش ہے۔۔۔
 *انعام دوم*
سیدہ سلمی الیاس صاحبہ کا یہ شعر
 *شام پیڑ  تنہائی اداسی خاموش راستے۔*                                                                                           *میں اکیلا کہاں سب میرے ساتھ ہی تو ہیں۔*                                          کاںٔنات  بشیر

 *جس رات کھلا مجھ پہ وہ مہتاب کی صورت* 
 *وہ رات ستاروں کی امانت ہے سحر تک*                                قاضی فوزیہ انجم
 *انعام سوم*
میں ہوں ترا خیال ہے اور چاندنی رات ہے
دل درد دے نڈھال اور چاند رات ہے
 *فرحت جبین باجی*

 *نہ اتنا ظلم کر اے چاندنی بہر خدا چھپ جا* 
 *تجھے دیکھے سے یاد آتا ہے مجھ کو مہتاب اپنا*
شیخ نعیم 
تمام انعام یافتگان کو دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد 
آپ کا خادم 
 *خان محمد یاسر* 
محفل مشاعرہ

No comments:

Post a Comment