Sunday, November 29, 2020

دل ‏کی ‏سننے ‏پر ‏دماغ ‏کی ‏ضرب

محترم دوستوں 
السلام علیکم 
امید کہ مزاج گرامی بخیر ہوں گے اللہ تعالٰی ہمیشہ خوش رکھے کسی کا مجبور و محتاج نہ رکھے دل و دماغ میں سکون عطا فرمائے دل کے ہاتھوں دماغ اور دماغ کے ہاتھوں دل کو محفوظ رکھے۔
عجیب دنیا ہے دل کی سننے پر پاگل اور دماغ کی سننے پر ہوشیار کہتی ہے کبھی دل مات کھاتا ہے مجنوں کہتے ہیں اور تو کبھی دماغ ہار جاتا ہے دیوانہ آہ!
 یہ کیا مجبوری ہے اسی لیے کبھی کبھی دماغ کو دل کی حرکتوں پر بہت غصہ آتا ہے اور وہ دل کو قابو میں کرنے کے لیے کراری ضرب لگاتا ہے تاکہ دل کے ہوش ٹھکانے پر آجائے اسی لیے میں نے کہا تھا کہ 


*میں نے کہا بھی تھا یہاں سے نکل چلتے ہیں....*
*اے دل..! تیرے لحاظ میں مارا گیا ہوں میں..*
اسے کہتے ہیں عقل پر پتھر پڑنا
خیر کوئی بات نہیں سب کے ساتھ ہوتا کوئی بتاکر ہوا دیتا ہے کوئی چھپا کر دوا لیتا ہے 

*خان گوہر نایاب* خود کی برائی کرنے لگی اور اپنی مجبوری بتا رہی ہے کہ اہل دل تھے خسارے میں رہے وہ ہوشیار سے جس نے دماغ کی سنی۔


*کبھی دماغ کو خاطر میں ہم نے لایا نہیں* 
*ہم اہل دل تھے ہمیشہ رہے خسارے میں*
خورشید طلب
درجہ بالا شعر فھیم باجی نے بھی ارسال کیا ہے

بہت خوب گوہر اور دوسری بار بھی وہی حرکت ایک بار کی ٹھوکر سے نہیں سنبھلے کہ دوسری بار بھی وہی غلطی  کر بیٹھے معاملہ دل کے حوالے کردیا 

*دماغ اہل محبت کا ساتھ دیتا نہیں*
*اسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے*
فراغ روہوی
درجہ بالا شعر *فوزیہ باجی* نے بھی چندلمحات کی دیرینہ میں میرے اسکرین پر ارسال کیا ہائے کیا مجبوری ہے کمبخت یہ وقت کسی کو اولیت دیتا ہے اور کسی کو دوم پر خیر ابھی تو اشعار کا مطالعہ جاری ہے دیکھتے ہیں آگے آگے کیا ہوتا ہے


*جس آگ سے دل سلگ رہے تھے*
*اب اس سے دماغ جل رہے ہیں*
سلیم احمد

*نتیجہ ایک سا نکلا دماغ اور دل کا*
*کہ دونوں ہار گئے امتحاں میں دنیا کے*

اعجاز گل

*مختصر نہیں ہوتے سلسلے محبت کے*
*عارضی کبھی دل کا عارضہ نہیں ہوتا*

*میرے دل و دماغ پہ چھائے ہوئے ہو تم*
*ذرے کو آفتاب بنائے ہوئے ہو تم*

اثر محبوب
فوزیہ باجی یہ اچھی بات ہوگئی دونوں قابو میں ہے اور آفتاب نما ذرہ سامنے ہے پھر دیر کس بات کی اس ذرہ کو قابو میں رکھنے کی صورت اختیار کرو آپ
فھیم باجی آپ موقع کی نزاکت کو بہترین انداز میں سمجھتے ہو واہ
☺️
*اچھّاہےدل کےساتھ رہے پاسبانِ عقل*
*لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑدے*
اشرف سر بھی دل کو اکیلے چھوڑنے کی بات کر رہے ہے
فھیم باجی دل کے دماغ کو کبھی کبھی سمجھا بھی دیا کرو
*لگاؤآج شاعری کی محفل*
*میرےدل کا آج دماغ خراب ہے*

یہ خود کا بنایا ہوا شعر ہے شاید
 *حافظ ابراہیم خان صاحب* اس بار دیر سے آپ کے نام کا ڈنکا بجا دل و دماغ کے ہاتھوں مجبور تو نہیں تھے نا خیر تمام ترسیلات عمدہ ہے ماشاءاللہ 


*سمجھ کر رحم دل تم کو دیا تھا ہم نے دل اپنا*
*مگر تم تو بلا نکلے، غضب نکلے ، ستم نکلے*
داغ دہلوی
*دنیا میں قتیل اس سا منافقت نہیں کو ئی*
  *جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا*
 ( قتیل شفائی )
کیا بات کہی سر 👏👏
جناب میرے دوست *عبدالستار* سر جو محفل کے ہردلعزیز شخصیت ہے ماضی سے رہا ہونے کا تقاضہ کر رہے ہے مگر کیا کہنا سر کوئی ماضی کی صورت نظر آتی ہے تو کمبخت دل ایکسپریس ریل کے انجن کے مانند دھڑکنے لگتا ہے اور اپنی رفتار کو بھول جاتا ہے 
*بگاڑا دل نے تو دل کو سزا دی جائے* 
*پر مری سوچ تو ماضی سے رہا کی جائے*

           رضا حسین ڑضی
میں سنا تھا شیر کبھی بوڑھا نہیں ہوتا سر مایوس مت ہو 
اب تو دل و دماغ میں کوئی خیال بھی نہیں 

اپنا جنون بھی نہیں اس کا جمال بھی نہیں  

مجھ کو کہیں ملی نہیں کوئی بھی راہ پر سکوں 

سمت جنوب بھی نہیں سمت شمال بھی نہیں

            سنیل کمار جشن
سکون نہیں بھی ملا تو چلتا منزل مل گئی کافی ہے


 *خان عالیہ* بہت دنوں کے بعد تشریف آوری ہوئی سنا ہے آپ ناراض تھیں کوئی بات نہیں جانے انجانے میں کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت مگر دل تو آخر دل ہے دماغ کی کہاں سنتا ہے ہمیشہ اپنوں سے ہی ناراض رہتا ہے

*خان عالیہ آفرین* 

*ہم نے تو اپنے جسم میں اک دل کو مارا ہے*
*کیا پھر بھی سوچتے ہو کہ قاتل نہ ہوں گے ہم*

منتظر فیروز آبادی


*پھر محبت ہو گئی ہم کو تمہاری یاد سے*
*پھر دل بسمل دل بیمار ہی مارا گیا*

وقاص یوسف

 *رازق سر* اس میں رہ جاؤ کوئی دوسرا بھی کام کیا کرو


*دل و دماغ کو بخشی تھی جس نے یکسوئی*
*وہی خمارِ محبت ہے آج بھی درکار*

افتخارراغب

*محبت آگئی کس مرحلے میں*
*دماغ و دل نہیں ہیں رابطے میں*

افتخارراغب
*علم سے روشن تو ہے اُن کا دماغ*
*دل کے گوشے ہیں مگر تاریک سے*

افتخارراغب
محترم عزیز دوست *انصاری شکیب الحسن* کیا منفرد انتخاب ہوتا ہے آپکا


*باہر   سے  جا  ملا   میرے  اندر  کا  انتشار* 
*اپنے   خلاف   میں   نے  بھی  پتھر*     ن م ۔





*آگہی   موت   کے     برابر      ہے* 
*جان   جاتی   ہے جان  جانے میں* 

    ن م 




*وعدہ  کسی   سے  کرلیا  جینے کا اس لئے* 
*جینے  کے  ساتھ  ہوگیا  مرنا  بھی اب محال*  
     مبارک علی مبارکی 
یہ رہتی دور اندیشی اور حکمت کہ تصویر کی مناسبت سے *سید وقار احمد سر* نے اشعار ارسال کئے ہیں 
مان گئے استاد 


*دل و دماغ میں تکرار ہو نہ جائے کہیں*
*ترے وجود سے انکار ہو نہ جائے کہیں*
*متاعِ‌درد کو دل سے نکال مت آصف*
*یہ جسم اور بھی بیکار ہو نہ جائے کہیں*
درجہ بالا شعر پہلے عبدالستار سر نے بھیجا ہے

🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
*دماغ کو کر رہا ہوں روشن میں داغ دل کے جلا رہا ہوں* 
*اب اپنی تاریک زندگی کا نیا سراپا بنا رہا ہوں*
🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁🍁
یہ وہ شعر ہے جو انعام اول کا مستحق ہے اس لیے انھیں وقار سر کے پتوں میں سجا کر پیش کر رہا ہوں 


*کبھی دماغ کو خاطر میں ہم نے لایا نہیں* 
*ہم اہل دل تھے ہمیشہ رہے خسارے میں*


*دماغ اہل محبت کا ساتھ دیتا نہیں* 
*اسے کہو کہ وہ دل کے کہے میں آ جائے*


*ناز بے جا اٹھائیے کس سے* 
*اب نہ وہ دل نہ وہ دماغ رہا*
جب آپ نے اتنی ضربیں لگائی ہے دل پر دماغ کی تو دونوں کی ہیت تو بدلنے والی ہے ہی
اس شعر کو انعام دوم کی فہرست میں شمار کرتا ہوں
فریسہ باجی آخری ساعتوں میں تشریف لا کر فرما رہی ہے کہ دل و دماغ کے معاملات میں خاک ہوجائے گے ہم تم کو خبر ہونے تک
کوثر باجی نے بھی ایک شعر بھیجا تھا مگر وہ تاخیر سے آنے کے سبب اس مقابلے میں شریک نہیں کیا گیا اسی طرح فریسہ باجی کے دوسرے اشعار کو بھی مقابلے میں جگہ نہیں دی گئی۔

No comments:

Post a Comment