بچوں میں سے کسی نے بھی اسکول کا منہ نہ دیکھا ،، اردو پڑھنا بھی مسجد میں جاکر سپارہ پڑھ کر سیکھا ،جس نے بھی سیکھا ،،
بچے سر اٹھاتے تو فصلوں اور کھیتوں میں دھکیل دئے جاتے ،، جو گائے دوسرے گاؤں سے جفتی کرا لاتا وہ پرائمری پاس کر لیتا ،جو ہل کی ہتھی پکڑ لیتا وہ میٹرک پاس کر لیتا ،جو کسی مل میں ملازم ھو جاتا وہ ایم اے کر لیتا ،، یوں والدین کا خرچہ کچھ نہیں تھا منافع ہی منافع تھا ،، لہذا والدین کبھی فرسٹریشن کا شکار ہو کر بچوں کی ماں بہن ایک نہیں کرتے تھے ،، راوی چین ہی چین لکھتا تھا ،بچے کی مونچھیں بھیگتی یا مسیں پھوٹتیں تو اسی حویلی میں سے ایک کڑی پکڑ کر اس کے ساتھ بیاہ دی جاتی اور چارپائی اور پانی کی بالٹی چھت پر چڑھا دی جاتی ،، شادیاں عموماً 16 سال کا لڑکا اور 14 سال کی لڑکی کے حساب سے ہوتی تھیں،، سارے دیہات کا تقریباً یہی رواج تھا ،، والدین بھی سوکھی تھے ،بچے ایک منہ اور دو ہاتھ لے کر آتے تھے ،، بچے دس بھی ہوں تو مونگ پھلی بھی چن کر لاتے تو بھی اپنی اپنی اس دن کی روٹی خود کما کر شام کو گھر آ جاتے تھے ،،
نہ زیور بکتا تھا ، نہ ایجنٹوں کا دھوکا تھا ، نہ ادھر ادھر کے دھکے تھے ، نہ والدین کے کوسنے تھے اور نہ اولاد کا ڈیپریشن تھا سالوں میں بھی کوئی معاشی خود کشی نہیں ہوتی تھی ،جو ایک آدھ کیس دو چار سال میں ہوتا وہ عشق کی ناکامی کے سبب ہی ہوتا تھا ،، فرسٹریشن دونوں نسلوں میں نہیں تھی ،،،،،،،،،،،،
پھر دور تبدیل ہوا ،، لوگوں نے زمینیں بیچیں ، زیور بیچے اور بچوں کو ایران کے رستے یونان امریکہ فرانس آسٹریلیا اور دبئی کی طرف روانہ کیا ،، کچھ پہنچے کچھ رستے میں ہی خواہشات کے جنگل میں مر کھپ گئے ، جو پہنچے ان کا حال اے ٹی ایم یا گو کیش go cash کارڈ کا سا تھا ،، وہ کما کر بھیجتے گئے اور کوشش کی کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے اور کسی اچھے جاب پر لگ جائے ،، تعلیم میں مقابلہ بازی شروع ہوئی کیونکہ انگلینڈ کے لوگ پڑھے لکھے تھے وہ آفس جاب میں لگتے جبکہ ہندوستانی نچلے درجے کے کام کرتے تھے ،،
دیہات میں بجلی آئی تو ٹیلی ویژن کو بھی لائی ،اور دیگر بجلی کا سامان بھی امپورٹ ہوا ، والدین مشین کی طرح کما کر اولاد پر لگاتے چلے گئے اور اپنی جوانی اور اس سے متعلق جذبات کو قربان کر دیا ،، والد 4 ، 4 سال بعد ملک کا چکر لگاتے وہ بھی ایک ماہ کے لئے مہمان کے طور پر آتے ،، ایک ماہ میں بچوں کا کیا پتہ چلتا ہے ،فاتحہ خوانی پوری نہیں ہوتی تھی کہ چھٹی ختم ہو جاتی ،، سہولیات ملیں تو بچے بگڑتے چلے گئے اور والدہ چھپاتی چلی گئی اور مرد اندھا دھند 16 ، 16 گھنٹے کام کر کے کما کر گھر بھیجتے چلے گئے،،
اولاد پر لعن طعن شروع ہوا ، اخراجات کا حساب کتاب شروع ہوا ، تعلیم کو کوسا گیا اور والدین اور بچوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی،،تعلیم دن بدن ٹف ھوتی چلی گئی وہ آج سے چالیس سال پہلے والی تعلیم نہیں تھی جب انگلش چھٹی کلاس سے شروع ہوتی تھی اور میٹرک تک ہمیں انگلش کے حروفِ تہجّی ہی درست کرنا سکھایا جاتا ،، مائی بیسٹ فرینڈ ، مائی فادر ،، ہنگری فاکس اور تھرسٹی کرو پر میٹرک ہو جاتی تھی ،، اب انگلش کچی یعنی کے جونیئر کے جی ہی شروع ہو جاتی ہے ، بستے بڑے ہوتے گئے اور رشتے چھوٹے ہوتے چلے گئے ،، ساری ساری رات پڑھ کر بھی بچہ پاس نہ ہو تو بھی گھر میں اس قدر ذلیل کیا جاتا ،، اس کو ماں بہن سے گالیاں دی جاتیں ، مار اس قدر شدید کہ پڑوسی آکر چھڑائیں تو چھڑائیں ماں بھی قریب جانے کی ہمت نہ کرے ،، یوں والدین اور اولاد کے درمیان نفرت کی نادیدہ مگر محسوس دیوار بننا شروع ہوئی ،،
ریزلٹ کے دنوں میں نہر کے پلوں پر پولیس پہرہ لگ جاتا ہے کیونکہ ناکام ہونے والے بچے ریزلٹ سن کر گھر جانے کی بجائے قبر میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں ،، والدین اپنی جگہ اخراجات کے گوشوارے دکھاتے پھرتے ہیں اور بچہ اپنے جسم پر پڑے نیل کے نشان دکھاتا پھرتا ہے ،، یعنی کہ اس تعلیم کی بجائے ، ان اخراجات کی بجائے کچھ بھی نہ ہوتا تو والدین اور اولاد کا تعلق تو قائم رہتا ،، جب ہر لمحہ ان اخراجات کو کوسا جاتا رہے ،، تو وہ ناسور بن جاتے ہیں ،، ایک عورت بیرون ملک سے آئی تو گاؤں کی ایک غریب عورت کے لئے ایک سوٹ لے کر آئی اور اس کو کہا کہ آپ یہ سلا کرپہن لیں ،، مگر اس عورت نے شاید وہ سوٹ اپنی بیٹی کو دے دیا ہو گا ،، لیکن یہ خاتون جہاں اس غریب عورت کو دیکھتی فورا ً پوچھتی کہ " ماسی وہ سوٹ ابھی نہیں سلوایا ؟ " یہاں تک کہ ماسی نے اس خاتون کو دیکھ کر ہی رستہ تبدیل کرنا شروع کر دیا ،، پھر وہ ان اوقات میں اس گلی سے گزرتی جب اس خاتون کے رستے میں ملنے کے امکانات نہ ہوتے ،مگر ایک دن صبح صبح بیچاری پکڑی گئی اور اس خاتون نے ابھی ماسی ہی کہا تھا کہ ماسی دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی " خدا کا واسطہ ہے اگر ایک سوٹ مجھے دے ہی دیا ہے تو اب مجھے جینے دو "
یہیں حال اولاد کا ہو جاتا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے اگر پڑھا ہی رہے ہو تو یہ رات دن کا راگ بھیرویں مت سنایا کریں ، سن سن کر ڈیپریشن ہو گیا ہے ،،
والدین بچے میں نفرت بہت پہلے سے بھر چکے ہوتے ہیں ،، جب اس کی شادی ہوتی ہے اور وہ کمانے لگتا ہے تو والدین سے اس کا رویہ سرد مہری کا ہوتا ہے ،جس سے سمجھا یوں جاتا ہے گویا کہ آنے والی نے کان بھرے ہیں ، ورنہ ہمارا چاند تو ایسا نہیں تھا ،، الغرض والدین سب کچھ داؤ پر لگا کر ، اپنی جوانی کی قربانی دے کر صرف اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے بازی ہار جاتے ہیں ،، پھر جو بیٹے تابعدار ہوتے ہیں والدین خواہشات کا ایسا بار ان پر ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے حقوق پورے کرنے سے عاجز آ جاتا ہے ،، یوں گھر کے اندر ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے جب بیوی اپنے بچوں کا حق بھی پیچھے جاتے دیکھتی ہے ،، والدین ابھی بھی یہیں گردان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اتنا لگایا ہے اور اتنا کھپایا ہے ،لہذا سب کچھ ہمارا ہے ،، اور حدیث کوٹ کی جاتی ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے والد کے ہو ،، جبکہ شریعت میں اولاد کی موجودگی میں چھٹا حصہ والد کا ہے اور چھٹا حصہ ماں کا ہے بیوی کو اٹھواں حصہ ملتا ہے اور باقی اولاد کا ہے ،مگر اس حدیث کو بیان کر کے اولاد کا حق بھی مار لیا جاتا ہے،،
والد صاحب بیٹیوں کی شادی کے لئے 10 لاکھ اور اٹھارہ لاکھ مانگتے ہیں ،، پلاٹ اور مکان کی قسطیں الگ ہیں ،، گویا پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کمانے والے بیٹے کو ہینڈ ٹو ماؤتھ رکھا جائے اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کا کچھ بھی نہ بنا سکے ،، بیٹا اپنے بچے بھیج کر والدین کے تقاضے پورے کرے تو وہاں اس کے بچے بیمار ہو جائیں تو کوئی اسپتال لے جانے کا روادار نہیں ہوتا ،، بیٹا پیارا ہے اور اس کی بیوی اور اولاد سے دشمنی ہے ،، بیٹا ذہنی مریض بن جاتا ہے گھریلو سیاست سے ماحول کو آلودہ کر دیا جاتا ہے ،عین اس وقت جب کھانا لگ چکا ہے ، بچے بیٹھے ہوئے ہیں کہ بہن یا بھانجی کا فون آ جائے گا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھانا ہے ، اور وہ بھی سب کچھ لگا لگایا بچوں کے سامنے پڑا رہ جاتا ہے اور وہ بھانجیوں کے ساتھ کھانے چلا جاتا ہے ،، بیوی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے اور بہن بھائی کو گھر بلا کر بغلیں بجا رہی ہوتی ہے اور اس ڈھگے کو اس سیاست کی کوئی سمجھ نہیں لگتی ،، اس اولاد میں بھی پھوپھو اور چاچو اور دادا دادی کے خلاف نفرت بھرتی چلی جاتی ہے جو عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی ماں بھرتی ہے جبکہ اصل میں باپ اور ددھیال کا رویہ ان میں زہر بھرتا ہے ،،
اب جب باری آتی ہے رشتے ناتوں کی تو پھر ایک دوسرے کے یہاں رشتے کرنے کا امکان ختم ہو چکا ہوتا ہے ،، اور دونوں فریق رشتے باہر ڈھونڈتے پھرتے ہیں ،، دادا دادی اپنی ہی اولاد کو ایک دوسرے کا اس قدر دشمن بنا دیتے ہیں اپنی سیاست کی وجہ سے کہ مزید رشتے داری ممکن ہی نہیں رہتی ، ہر فریق دوسرے سے بدکتا ہے کہ یہ میری بیٹی سے بدلے لے گا ،، اور ایک فریق کہتا ہے کہ انہوں نے پہلے میرا شوہر ورغلائے رکھا تھا اب میں بیٹا ان کو کیسے سونپ دوں ،،
الغرض ہندوستان میں اب برادری سسٹم صرف شناختی کارڈ میں باقی ہے ،، عملی طور پر اپنا وجود کھو چکا ہے ،، کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہیں ہے ،،
درجہ بالا تصویر میں اب صرف میاں بیوی اور دو بچے رہ گئے کیونکہ وہ اپنا گھر اپنے والدین سے نفرت کرنے لگے ہیں کیونکہ اپنی انا کی خطر وہ انھیں اپنوں سے دور کر چکے ہوتے ہیں۔
پہلے ہم ایک گھر میں سات آٹھ بھائی بہن رہتے تھے اور ماں یا باپ کو اپنے بازو سلانے کے لیے لڑا کرتے تھے اب انھیں ماں بات کی لاپروہی کی وجہ سے ان کے گھر میں سے انھیں ہی نکالا جارہا ہے۔ میرے پاس ایسی کہیں مثالیں موجود ہیں جہاں اچھے خاصے گھروں میں والدین کے لیے جگہ نہیں۔
خیر آج جب میاں اور بیوی دونوں نوکری پر ہیں اور گھر میں بچوں کو سنبھانے والا کوئی نہیں تب یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے تو اپنے ہوتے ہیں ان سے روٹھ کر کہیں نہیں جا سکتے انھیں منائیں انھیں عزت دے ان کی قدر کریں دونوں اس دور میں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور دوسرے کے درد کی دوا بنیں۔ اور ایک بات غیروں کے طریقے کو مت اپناؤں کہ ہم دو ہمارے دو ایک گزارش ہر کوئی اپنا رزق لے کر آتا ہے جو آرہا ہے فقر و فاقے کی ڈر سے اسے قتل مت کروں اتنا کہہ کر میں اب نتیجے کا اعلان کرتا ہوں۔
*انعام خصوصی*
ہم نے اپنی مفلسی کا کچھ اس طرح رکھا بھرم
واسطے کم کرلیئے اور مغرور کہلانے لگے
*شیخ عبدالرازق حسین*
ساتھ رہنا ہو مگر رہنے کا سامان نہ ہو
ہائے احساس کا ایسا کبھی فقدان نہ ہو
مشکل راہیں ہیں پر ترے ساتھ ہوں میں
ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ، تو پریشان نہ ہو
*سید عبدالستار سر*
شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا
افتخار عارف
مراسلہ *فھیم خاتون مسرت باجی*
غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا
اقبال ساجد
مراسلہ *مرزا حامد بیگ صاحب*
بستی سے رزق اٗٹھ گیا تو ہم بھی اٗٹھ گۓ
ہجرت مثال ِ مرگ تھی ! ٹالی نہیں گئ
شاھد ذکی
مراسلہ *محمد وسیم راجا*
🌹🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹🌹
عزم و یقین ، حوصلے پل پل بہم رہے
راہِ جنوں میں تم جو مرے ہم قدم رہے
شاعر : علیم اسرار ناندیڑ
مراسلہ:
*سید عبدالستار سر*
غربت میں بشر کے لیے سو طرح کا ڈر ہے
میرا تو سفر رنج و مصیبت کا سفر ہے
*سید وقار احمد سر*
🥈🥈🥈 *انعام دوم* 🥈🥈🥈
صعوبتوں کا سفر ہے سفر تمام تو ہو
ٹھہر بھی سکتا ہوں لیکن کوئی مقام تو ہو
*خان آفرین*
کچھ درد ایسے بھی ملے ہیں زندگی میں
جنہوں نے جان بھی لے لی زندہ بھی چھوڑ دی. ...
*خان گوہر نایاب*
🥉🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉🥉
کسی کا ساتھ اگر ہو تو خوب ہے ورنہ،
سفر تو کرنا ہے ہم نے، سفر تو جاری ہے
*انصاری شکیب الحسن سر*
وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں
*قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*
خان محمد یاسر
No comments:
Post a Comment