Wednesday, June 15, 2022

تشنگی


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
*پھر طبیعت میں کیوں نہ روانی آئے* 
*کسی پیاسے کے سامنے اگر پانی آئے*
مراسلہ *سید عبدالستار سر*
محفل کی آن بان شان😘
احباب بزم محفل مشاعرہ امید ہے آپ خیریت سے ہوگے میں بھی خیریت سے ہوں اور آج رات 11:20 کی دیوگیری ایکسپریس سے ممبئی کے لیے روانہ ہو جاؤں گا۔ ممبئی سے 20 جون کی صبح میرا جہاز ممبئی سے جدہ کے لیے پرواز کرے گا۔ آپ تمام احباب کا اس گروپ کی کامیابی اور کارکردگی میں بہت ساتھ رہا اس گروپ کے تمام احباب کا میں خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہر ایک کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے بار بار بار بار اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے اور میرا اور تمام امت مسلمہ کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اور اللہ سے مزید دعا ہے کہ وہ آپ تمام احباب کے مسائل کو حل فرمائے مشکلات کو آسان کرے دونوں جہاں میں کامیاب کرے کسی کا محتاج نہ رکھے۔ آپ کے جائز خواہشات کو پورا کرے *آپ کی پیاس کو تشنگی کو بجھائے* اور شاید میرا عنوان بھی یہی تھا۔
عبدالستار سر نے کہا تھا کہ دیکھنا ہے کون کتنا پانی پیتا ہے؟ یا  پلاتا ہے۔ اور یہ بات بھی صحیح کہا کہ جب ایک پیاس بجھ جاتی ہے تو دوسری پیاس بھڑک جاتی ہے۔


🌹🌹 *انعام اول*🌹🌹

آنکھوں کی تشنگی کا تمہیں تجربہ نہیں
تم دیکھتے رہوگے تو بڑھتی ہی رہے گی
مراسلہ *سید عبدالستار سر*
‏مری تشنگی, مری بے بسی, مری آرزو ,مری جستجو

اگر ایک بار تو جان لے تو کبهی نہ مجهکو جدا کرے
مراسلہ *ابرار علی خان اکبر علی خان*
میں دشت دشت رسوا تو سراب سا مسلسل
میں لمحہ لمحہ تنہا __ تو خواب سا مسلسل

مشہور ہیں نگر میں میری تشنگی کے قصے
میں قریہ قریہ پیاسا ___ تو آب سا مسلسل
مراسلہ *محمد وسیم راجا*

🥈🥈 *انعام دوم* 🥈🥈
صحرا کی طرح تکتی ہے بادل کی طرف آنکھ 
ملتی ہی نہیں پیاس کو چھاگل سے رہائی 

مراسلہ *عبدالرازق حسین*

میں وہ دریا ہوں جو گھر سے کبھی نکلا ہی نہیں
پیاس لے کر میری چوکھت پر سمندر آئے
مراسلہ *انصاری شکیب الحسن*

کہتی ہے تشنگی کسی دریا سے جاملو
فطرت کا کیا کروں جسے صحرا سے عشق ہے
مراسلہ *ثنا ثروت صاحبہ*
 
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے

کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے

سب کو سیراب وفا کرنا خود کو پیاسا رکھنا 

لے ڈوبے گا اے دل تیرا دریا ہونا

مراسلہ *گوہر نایاب فضل اللہ خان*


   🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉
کہیں بجھتی ہے دل کی پیاس اک دو گھونٹ سے انظرؔ
میں سورج ہوں مرے حصے میں دریا لکھ دیا جائے

مراسلہ: *قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*
 ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو 
لے جائے گی یہ پیاس کی آوارگی کہاں
مراسلہ *مرزا حامد بیگ صاحب*
 
میں پیاس ہوں جیسے صحرا کی تو چشمئہ ٹھنڈا ٹھار پیا 
مجھے عشق اڑائے پھرتاہے اس پار کبھی اس پار پیا

مراسلہ *محمد عقیل سر* 

خوابوں کی وادی میں ملے ہیں
بیتے لمحے گزرے زمانے
مراسلہ : *خان آفرین*

پھر کسی پیاس کے صحرا میں مجھے نیند آئے
اور میں خواب میں مانگوں تجھے پانی کی طرح
مراسلہ *فہیم خاتون مسرت باجی*

آب ہے صحرا میں تشنگی کے بعد عشق حقیقی۔۔۔ 

پھر یوں سارا حسن خلق بھی بے وجہ لگتا ہے خوشی۔۔

کاش تیری بندگی کی تشنگی مجھ میں آب جیسی ہوتی قسامِ ازل۔۔۔ 
 جام کے جام نوش کرتی خوشی عالم عشق میں تیرے بدل بدل۔۔۔۔ 
*ازقلم۔۔۔ خوشی*


موبائل اور اِنٹرنیٹ کی سہولیات کی وجہ سے دنیا مٹھی میں ہوگئی دور کے لوگ بہت قریب ہوگئے اور قریب کے بہت دور یادوں کے صحرا میں اپنوں کے چہرے کہیں کھو گئے پھر بھی ابرا کا یہ شعر تشنگی دور کرنے کے لیے بہت صحیح ہے اور میں بھی ایک صحرا میں جا رہا ہوں جہاں آپ کے چہرے مجھے یاد آئے گے۔

 *سرِ صحرا مسافر کو ستارہ..!*
*یاد رہتا ہے..!!*


*میں چلتا ہوں مجھے چہرہ..!*
*تمہارا یاد رہتا ہے.*

No comments:

Post a Comment