Sunday, March 12, 2023

عبث

دعا میں التجا نہیں،
تو عرض حال مسترد 
سرشت میں وفا نہیں،
تو سو جمال مسترد 


ادب نہیں، تو سنگ و خشت
 ہیں تمام ڈگریاں 
جو حُسن خلق ہی نہیں،
تو سب کمال مسترد 


عبث ہیں وہ ریاضتیں
جو یار نہ منا سکیں 
وہ ڈھول تھاپ بانسری،
 وہ ہر دھمال مسترد


کہو سنو ملو مگر
 بڑی ہی احتیا ط سے 
مٹھاس بھی تو زہر ہے،
 جو اعتدال مسترد
مراسلہ سید *وقار احمد سر ناندیڑ*

احباب من السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ دن گزرتے جا رہے ہیں ہم اپنی عمر مکمل کرکے نہ پوری ہونے والی حسرتوں اور چاہتوں کو یہیں چھوڑ کر دارِفانی سے رخصت ہونے کے لیے تیار بیٹھے ہیں اب دیکھیے نا گذشتہ اتوار فرصت ہی میسر نہیں ہوئی اور جب اتوار گزر گیا تو محسوس بھی نہیں ہوا کہ اتوار گزر گیا اور پیر کی رات 7 بجکر 50 منٹ کو میں نے اتوار سمجھ کر تصویر پوسٹ کردی مقابلہ چلتا رہا اور ممبئی سے اورنگ آباد کا میرا یہ سفر بھی مگر اس سفر میں ایک فکر بھی سفر کر رہی  تھی کہ میں جس شہر جا رہا ہوں اس کا نام تو اب کچھ دنوں بعد وہ نام رہے گا یا نہیں ہر اورنگ آبادی کے چہرے پر یہ فکر نمایاں نظر آ رہی ہے میں آفس پر آویزاں ہر تختی کو دیکھتا ہوں اور دل افسردہ ہو جاتا ہے کبھی کبھی سانسوں کی روانی تھکاوٹ کی محسوس ہوتی ہے یہ محسوس کرتا ہوں جیسے دل رو رو کر تھک چکا ہے کبھی میں اپنے آپ کو ایک گروہ کے ساتھ دیکھتا ہوں اور کبھی تنہا گروہ میں رہنے کے باوجود میں تنہا ہی رہتا ہوں یہ کیا ماجرا ہے نا جانے کب یہ اداسی ختم ہوگی نا جانے کب خوشگواری رونما ہوں گی کب دلوں میں سویا ہوا احساس جاگے گا-

*جی میں آتا ہے کہ اک بار تو چیخوں ایسے*
*ساری دنیا کو خبر ہو کہ تجھے کھویا ہے*
یہ عالم دل کا ہے اور ھما نے اسے بہتر انداز سے اپنے شعر میں بیان کرنے کا موقع دیا ہے  اس کے علاوہ علیم اسرار سر یوں گویا ہوئے 
*اک شخص خوبصورت سی زندگی کو ہارے*
*بیٹھا ہوا ہے بے کل بے بس سڑک کنارے*

علیم اسرار
علیم اسرار سر  کا یہ شعر ہر اورنگ آبادی کے نام کرنا چاہوں گا کیونکہ میرے شہر کی حالت ایسی ہی ہوگئی ہے۔

اس لیے درجہ بالا شعر انعام اول کا حقدار ہے اور اسی کے ساتھ یہ دو شعر بھی
*زمیں روئی ہمارے حال پہ اور آسماں رویا*

*ہماری بے کسی کو دیکھ کر سارا جہاں رویا*

خان گوہر نایاب فضل اللہ خان 
*کُنجِ تنہائی میں دیتا ہوں دلاسے کیا کیا*
*دلِ بیتاب کو مَیں اور دلِ بیتاب مجھے*
قاضی فوزیہ انجم صاحبہ 
اب میں کیا کر سکتا ہوں جب اشرف سر کا یہ شعر مجھے انعام اول دینے کی طرف بار بار راغب کر رہا ہو تو اس لیے اسے بھی انعام اول کا مستحق قرار کے کر شامل کر رہا ہوں
*لوگ کہتے ہیں بھول کر اسے نئی زندگی شرو ع کر*

*وہ روح پر قابض ہے مجھے کسی اور کا ہو نے نہیں دیتا ☺️*

انعام دوم
 جالنہ والوں نے ابھیبتک اورنگ آباد تبدیلی نام کے سلسلے میں اعتراضات داخل نہیں کیے کیونکہ ان کا کہنا ہے
دیر نہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں 

*بیٹھے ہیں رہ گزر پہ ہم غیر ہمیں اٹھائے کیوں* 
*ہاں وہ نہیں خدا پرست جاؤ وہ بے وفا سہی*

*جس کو ہو دین و دل عزیز اس کی گلی میں جائے کیوں*
فیاض سر جالنہ

*رہتے تھے کبھی جن کے دل میں ہم جان سے بھی پیاروں کی طرح*
*بیٹھے ان ہی کے کوچہ میں ہم آج گناہگاروں  کی طرح*
مجروح سلطانپوری
مراسلہ  سرتاج شاکر سر
*بیٹھا کرتے تھے جہاں تمہاری صحبت میں*
*آج بھی بیٹھتے  ہیں ہم  وہیں   مگر  تنہا*
سید عبدالستار سر 


انعام سوم
*چپ چاپ سے بیٹھے ہیں ہر اک نقش مٹا کر*
*تھک ہار کے دنیا کا کہا مان چکے ہیں*
خان آفرین
*بیٹھ جاتا ہوں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے* 

*ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے* 
*نہیں مرتے ہیں تو ایذا نہیں جھیلی جاتی*

*اور مرتے ہیں تو پیماں شکنی ہوتی ہے*
سیم راجا سر ممبئی
تحریر 
خان محمد یاسر 

No comments:

Post a Comment