Wednesday, November 13, 2024

تنہائی

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
احباب محفل مشاعرہ امید ہے کہ آپ تمام خیر و عافیت سے ہوگیں۔ آج کی بات کی ابتداء شکیب الحسن سر کے شعر سے کرتے ہیں کہ

 *تو نہیں تو زندگی میں اور کیا رہ جائے گا*
*دور تک تنہائیوں کا سلسلہ رہ جائے گا*
شکیب بھائی آپ کے انتخاب کو سلام جب آپ نے تنہائی کا انتخاب کیا ہے تو آپ اس بات کا احساس بھی ہوگا اب زندگی میں کیا رہ گیا۔ کسی شاعر نے کہا تھا۔
*میں احساس و مُروّت کا روندا ہوا شخص*
*کچھ کہہ بھی پایا تو فقط اتنا کہ چلو خیر ہے*
خیر میں نے بہت سارے نتیجوں کا اعلان کرنا ہے اس سے زیادہ گفتگو کم کرتا ہوں اور نتیجہ پیش کرتا ہوں۔ 

🌹🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹🌹

گم سم تمہارے ساتھ کی یادیں سمیٹ کر 
اکثر اکیلے چاند سے کرتا ہوں گفتگو 

*علیم اسرار*

‏تجھے خبر نہیں کیا شے ہے خوفِ تنہائی

ڈھلے جو شام تو خود اپنا گھر ڈراتا ہے
*فرح نور محمد*

زندگی جس کے تصور سے سنور جاتی ہے
میرے حصے میں وہی شام سہانی لکھنا
*حبیب بھائی*

💐💐💐 *انعام دوم* 💐💐💐
ضدوں سے ترک تعلق تو کر لیا لیکن
سکون اسے بھی نہیں بیقرار ہم بھی ہیں

 زبان کہتی ہے سارا قصور اس کا ہے
 ضمیر کہتا ہے کچھ ذمہ دار ہم بھی ہیں
چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنےغم تھےجوترےغم کےبہانے نکلے
دشت تنہائی ہجراں میں بیٹھاسوچتا ہوں
ہا ئے کیا لوگ مرا ساتھ نبھانے نکلے۔۔۔۔!!
*فہیم باجی*
سورج ہوں زندگی کی رمق چھوڑ جاؤں گا
میں ڈوب بھی گیا تو شفق چھوڑ جاؤں گا
*نکہت پروین باجی*

یہ شعر بچپن سے سنتے آ رہے ہیں جب بھی فلم شروع ہوا کرتی تھیں یہ شعر ایک اچھی سی آواز میں پڑھا جاتا
تھی ابھی صبح ابھی شام ہوئی جاتی ہے 
 زندگی ! گردش ایام ہوئی جاتی ہے 
*سید عبدالستار سر*
🍁🍁🍁 *انعام سوم* 🍁🍁🍁
ہم نے تنہائی سے پوچھا کہ ملوگی کب تک 
اس نے بے چینی سے فوراً ہی کہا شام کے بعد 
*انصاری شکیب الحسن سر*
 کیا بتلاؤں ان لمحوں میں کتنا تم کو سوچا تھا
 جھیل کنارے جس دم میں نے چاند نکلتے دیکھا تھا
*وسیم راجا*

جب شامیں ٹھنڈی ہو جائے تو تم ان سے کم کم ملنا   

 کیونکہ نومبر میں اکثر محبتوں کو زوال آتا ہے
*قاضی فوزیہ انجم*

بصیرت ہو تو قطرے میں سمندر۔ سماعت ہو تو منظر بولتے ہیں
*سید شفیع الدین نہری*

👨‍⚖️جج کی پسند کے اشعار 👨‍⚖️

آج کل چھٹی کے دن بھی گھر پڑے رہتے ہیں ہم 
شام، ساحل، تم ، سمندر، سب پرانے ہوگئے
*سید نسیم الدین وفا*


آج تنہائی نے تھوڑا سا دلاسہ جو دیا

کتنے روٹھے ہوئے ساتھی مجھے یاد آئے ہیں
*گوہر نایاب فضل اللہ خان*
دھڑکنیں محبت کی دل نشین خاموشی
مرحبا اے ہنگامو آفرین خاموشی

*خان آفرین*

No comments:

Post a Comment