Saturday, September 17, 2022

یادیں بچپن کی

🌹   *11/09/2022* 🌹🌹
*سزا دے ہی چکے تو حال مت پوچھو،،*
*ہم اگر بے گناہ نکلے تو افسوس بہت ہوگا تمہیں،،*
مراسلہ ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب 

مقابلہ  *تصویر پر شعر*
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
جج : *خان محمد یاسر اشرف*
امید آپ خیریت سے ہوں گے۔ اا ستمبر ۲۰۲۲ کو جو تصویر میں نے پوسٹ کی تھی وہ آج کل کے حالات پر منحصر تھی۔ ہمارے بچپن میں والدین میں کب کس بات پر جھگڑا ہوتا ہے اس بات کا ہمیں آج تک علم نہیں چلو یہ بات مان بھی لے کہ والدین میں کبھی جھگڑا ہوگیا ہو مگر چاچا تایا ابا اور ماموں میں کبھی جھگڑا ہوا اس بات کا بھی علم آج تک نہیں ہوا نہ جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کی دس دس اولادیں ہونے کے باوجود کام کا بھی بوجھ محسوس نہیں کیا شکایت کے نام پر کبھی اپنے خاوند سے ایک حرف تک نہیں کہا آج ہم اپنی اولادوں کے تعلق کے آئے دن آپس میں لڑتے جھگڑتے ہیں بھائی بھائی میں آپس میں نہیں جم رہی بہن بہن میں آپس میں نہیں جم رہی ایسا کیوں اور اس کی وجہ کیا ہے اس کی تلاش ضروری ہے ہم دور حاضر میں جن حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی کے عنوان مشکلات سے گزر رہے ہیں اور شکیب الحسن سر کی پریشانیوں میں مبتلا ہے اس کا حل ضروری ہوگیا ورنہ ہمیں اولادیں ذہنی تناؤ کا شکار ہو کر غلط رہ پر چل پڑے گے اور ہمیں لیے باعث شرمندگی کا سبب بنے گے اس لیے اس تصویر کو مد نظر رکھ کر شعر کہنے اور مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے یہ تصویر پوسٹ کی گئی تھی۔
 چلیے دیکھتے ہیں اس تصویر کی تہہ تک کون گیا اور کس نے اس کا عنوان کو سمجھ ہر اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی۔
    
           *انعام خصوصی* 

*کس جرم آرزو کی سزا ہے یہ زندگی*
*ایسا تو اے خدا میں گنہ گار بھی نہیں*
ڈاکٹر جواد احمد خان
ایسا تو آج کل کے سرپرستوں سے امتحان کے نتیجے کے دن بچہ پوچھتا ہوگا کیوں کہ تعلیم بہت مہنگی ہوگئی اور والدین سب کچھ بچے کو دے رہے ہیں سوائے وقت کے اور جو وقت دے رہے ہیں وہ ایسا جیسا کہ تصویر میں بتایا گیا ہے سوائے کچھ افراد کے یا خاندان کے۔
۔۔۔

*ادھوری اک کہانی چل رہی ہے*
*مسلسل زندگانی چل رہی ہے*
*جبر کرتے رہے ہم بچوں پر*
*روایت خاندانی چل رہی ہے*
مجھے نہیں لگتا کہ تصویر کو آپ سے بہتر کسی نے سمجھا ہوگا روایت یہ جو خاندانی ہے بہت خوب عالیجناب *سید وقار احمد سر*


*بچپن کی خوش مزاجیاں سب چھین کر میری*
*اے زندگی کیوں تونے جواں کر دیا مجھے*
ڈاکٹر سید زاہد علی صاحب

*مُنصفی شرط ہے آخِر کوئی کب تک بخشے*
*روز ہو جاتی ہے بُھولے سے خطا تھوڑی سی*

مراسلہ فریسہ جبین باجی

*بس ایک معافی ، ہماری توبہ کبھی جو ایسے ستائیں تم کو*

*لو ہاتھ جوڑے ، لو کان پکڑے ، اب اور کیسے منائیں تم کو*
مسعود رانا صاحب

            *انعام اول* 
*خوف کے سائے میں بچے کو اگر جینا پڑا*
*بدزباں ہو جائیگا یا بے زباں ہوجائیگا*
محمد عقیل سر 

*اس نئے دور کی تہذیب سے اللہ بچائے*
*مسخ ہوتی نظر آتی ہے بشر کی صورت*

عبدالرزاق حسین 

*ان سے وابستہ ہے مرا بچپن*
*میں کھلونوں کی قدر کرتا ہوں*
قاضی فوزیہ انجم صاحبہ 
ہوتا ہے بچپن میں بچہ دل کی بات کھلونوں سے ہی کرتا ہے چائے وہ گھر کا ٹوٹا ہو چمچہ ہی کیوں نہ ہو اس کی نظر میں اس  قدر اہمیت بہت ہوتی ہے
         
             *انعام دوم*

*میرے دل کے کسی کونے میں اک معصوم سا بچہ*

*بڑوں کی دیکھ کر دنیا   بڑا ہونے سے ڈرتا ہے*
خان گوہر نایاب
 
خدا حافظ
خادم
محفل مشاعرہ 

*میں نے بچپن میں ادھورا خواب دیکھا تھا کوئی*
*آج تک مصروف ہوں اس خواب کی تکمیل میں*

نزہت صاحبہ 

*زَمین اُٹھا کے میں مِرّیخ پر نہ دے مارُوں*
*کسی پہ غصہ مجھے آج اِنتہا کا ہے*
وسیم راجا سر

      *انعام سوم*
*ہم تو بچپن میں بھی اکیلے تھے*
*صرف دل کی گلی میں کھیلے تھے*
سیدہ ھما آفرین


*تہذیب سکھاتی ہے جینے کا سلیقہ*
*تعلیم سے جاہل کی جہالت نہیں جاتی*
فہیم خاتون مسرت باجی

Tuesday, August 30, 2022

قلم خط کتابیں

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
محترم احباب بزم محفل مشاعرہ میں نے جو تصویر پوسٹ کی تھی تصویر پر شعر کے عنوان پر اس کا اصل مقصد قلم تھا پھر بھی جو اشعار آئے ہیں قابل قبول ہے جس کا تبصرہ میں شعر کے ساتھ کرنے جارہا ہوں۔ میری پسند  سے ہر ایک کا متفق ہونا لازمی نہیں میرے انتخاب پر اختلاف ہو بھی سکتا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔
تو لیجیے پیش خدمت ہے تصویر پر شعر کا نتیجہ آپ اسے پڑھئے اور محظوظ ہوئیے۔
*اس نے دور رہنے کا مشورہ بھی لکھا ہے*
*ساتھ ہی محبت کا واسطہ بھی لکھا ہے*

*اس نے خط میں لکھا ہے  خط مجھے نہیں لکھنا*
*گھر کا فون نمبر بھی اور پتا بھی لکھا ہے*

*اس نے یہ بھی لکھا ہے میرے گھر نہیں آنا*
*اور صاف لفظوں میں راستہ بھی لکھا ہے*

*کچھ حروف لکھے ہیں ضبط کی نصیحت میں*
*کچھ حروف میں اس نے حوصلہ بھی لکھا ہے*

*شکریہ بھی لکھا ہے دل سے یاد کرنے کا*
*دل سے دل کا ہے کتنا فاصلہ بھی لکھا ہے*

*کیا اسے لکھیں انور  کیا اسے کہیں انور*
*جس نے بے مزہ کر کے ذائقہ بھی لکھا ہے*@⁨RAZEQ HUSSAIN Husain⁩ 

     🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹
1️⃣ *صفحۂ کاغذ پہ جب موتی لٹاتا ہے قلم*
*ندرتِ افکار کے جوہر دکھاتا ہے قلم*
*وسیم راجا صاحب*
بھائی وسیم بھائی سچ میں قلم والے ہیں اور ان کی نظر بھی سب سے پہلے قلم پر ہی گئی اس لیے انعام اول کے آپ حقدار ہوئے۔
 
2️⃣ *علم انسان کو انسان بنا دیتا ہے*
*علم بےمایہ کو سلطان بنا دیتا ہے*
 *اللہ جسے دے اسے ایمان بھی دے*
*ورنہ یہ وہ ہے جو شیطان بنا دہتا ہے*
*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب*
تصویر کو جب دوسرے پہلو سے دیکھیں تو یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ علم حاصل کرنے والوں میں عاجزی و انکساری ہو تو علم سلطان بناتا ہے اور اگر علم حاصل کرنے والوں میں غرور و تکبر اور انانیت آجائے تو وہ شیطان بنا دیتا ہے۔ ہمارے سامنے شیطان کی مثال موجود ہے۔ اللہ تعالٰی نے شیطان کے تکبر کو سورہ البقرہ سے لے کر سورۃ الکہف تک اور آگے بھی کہیں ذکر کیا کہ ہم نے شیطان  کو اور دیگر ملائکہ کو جب آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو سب نے سجدہ کیا بجز شیطان کے کیونکہ اس کو اپنے علم پر اور اپنے آگ سے پیدا ہونے پر غرور تھا۔ شیطان کے ایک انکار نے اسے ملعون قرار دیا ہم اللہ کے دن بھر میں سے نہ جانے کتنے احکامات کا انکار کرتے ہیں۔ ساتھیوں ہمارا اصل نصاب قرآن ہے اس پر ہمیں دھیان دینے کی ضرورت ہے ہم تمام کو اللہ کے احکامات کی حکم عدولی سے اللہ محفوظ رکھے۔ *حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب* بہت بہت مبارک آپ کے اس شعر نے ہمیں قرآن کی تعظیم اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی دعوت دینے والا بنایا اور ہمیں یہ بھی تعلیم ملی کہ علم سے انکساری آتی ہے۔ اور انکساری والے ہی کامیاب ہوں گے۔

3️⃣*ہماری زندگی میں پھول بن کر کوئی آیا تھا*
*اس کی یاد میں اب تک یہ تحریریں مہکتی ہیں*
*کھو گئے ہیں کہیں اپنے تعاقب میں*
*مل سکے خود سے تو اک روز ملائیں گے تمہیں* 
کیا بات ہے کیا بات ہے بہت خوب فہیم باجی آج *سید عبدالستار سر* نے اس بات کو قبول کرلیئے بھابی کو بتا سکتی ہو آپ۔ عبدالستار ان تحریروں کی مہک ہر بدھ کو ہم بھی محسوس کر لیتے ہیں مگر بدھ اور جمعرات میں ۸ تا ۱۰ کلاس رہتی جس کی وجہ سے میں شریک مقابلہ نہیں ہو پا رہا ہوں دوسری اور کوئی وجہ نہیں آئندہ مقابلوں میں ان ایام میرے شعر پوسٹ کرنے کی ذمہ داری کسی کو دے دوں گا کہ وہ وقت پر میرے نام سے اشعار پوسٹ کر دے یا آپ کو انفرادی بھیج دوں گا آپ نے وقت رہتے شریک مقابلہ کر لینا۔ دوسرے والے شعر میں قبول کرلیئے کہ مہک میں کھو گئے ہاں۔
*قلم میں زور جتنا ہے جدائی کی بدولت ہے*
*ملن کے بعد لکھنے والے لکھنا چھوڑ دیتے ہیں*
ثنا ثروت صاحبہ 
*الفاظ نہ آ پائے تحریر کی منزل تک*
*بیٹھا ہوں لیے کب سے ہاتھوں میں قلم* 
سید وقار احمد سر 
  🥈🥈 *انعام دوم*🥈🥈
1️⃣*ایک مدت سے انہیں روز پڑھا کرتا ہوں*
*جن بیاضوں میں عبارت نہیں لکھی تو نے*

*ڈاکٹر ندیم ابن منشاء* صاحب District health officer تھے منشاء الرحمن منشاء کے فرزند ارجمند ہیں میری ملاقات اورنگ آباد میرے بڑے بھائی کی شادی میں ہوئی تھی اس 2007 میں آج تک دل سے دل کا رشتہ قائم ہے ناگپور سے آنے والے ہر شخص سے میں آپ کی خیریت دریافت کرتے رہتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بہت عمدہ شعر کہا ماشاءاللہ 


3️⃣ *یوں تو لکھنے کے لیے کیا نہیں لکھا میں نے* 
*پھر بھی جیتنا تجھے چاہا نہیں لکھا میں نے*
اللہ حبیب بھائی کی مغفرت فرمائے فرحت باجی آپ کی جوڑی one of the most beautiful جوڑی تھی۔ آپ کے لکھنے کی ضرورت نہیں تھی حبیب بھائی سمجھتے تھے اس بات کو۔ 
قلم گوئد کہ من شاہ جہانم 
قلم کش  را بدولت می رسانم
*مرسلہ عبداللہ خان ممبئی*
🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉
1️⃣ *لفظ چھن جائیں مگر تحریر ہو روشن جہاں*
*ہونٹ ہوں خاموش لیکن گفتگو باقی رہے*
*و*
*یہ علم کا سودا یہ رسالے یہ کتابیں* 

*اک شخص کی یادوں کو بھلانے کے لیے ہیں* 

جاں نثاراختر کے اس شعر کو فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ نے اپنے دل بھلائی کا ذریعہ بنایا ہے کیونکہ ان کا چھوٹا بیٹا جو بہت لاڑ کا ہے وہ آندھرا میں میڈیکل کی پڑھائی کر رہا ہے اور باجی کتابوں رسالوں سے سودا کیے بیٹھے ہیں ویسے عمران عالم صاحب بھی ان کا ساتھ دیتے مگر دل ہے کہ مانتا نہیں۔😁

2️⃣ *اسے پڑھ کے تم نا سمجھ سکے کہ میری کتاب کے روپ میں*
*کوئی قرض تھا کئی روز کا کئی رتجگوں کا ادھار تھا*

*کیسے تحریر کر پاؤں گی آج احوال اپنا*
*لفظ افسردہ سے، ذہن الجھا سا اور لہجہ بیزار سا*

اب آپ ایم فیل کر رہے ہو پھر پی ایچ ڈی کروں گی تو ظاہر ہے *ہما* کتاب آپ لکھو گی اور وہ کتاب بہت موٹی بھی ہوں گی تو اس کو سمجھنے وقت تو لگے گا رتجگوں کا کیا وہ اچھے کاموں میں ہوتے رہتے ہیں۔   دوسرے شعر میں یہ اثر رتجگوں کی وجہ سے طاری ہورہا ہے کبھی آرام بھی کر لیا کروں دنیا والے مارنے تک مچھر کی طرح خون چوستے رہتے سب اپنا لہجہ سنبھال کر رکھنا لہجوں کی وجہ سے لوگ ٹوٹتے اور جوڑتے ہیں۔😊



3️⃣ *یہ تیرے خط تری خوشبو یہ تیرے خواب و خیال*
*متاع   جاں   ہیں   تیرے   قول   اور قسم کی طرح*
 
*گزشتہ   سال   انھیں   میں   نے   گن   کے رکھا تھا* 
*کسی   غریب   کی   جوڑی   ہوئی   رقم کی طرح*
 اللہ آپ کے خواب و خیال کو حقیقی پورپ عطا کرے *خان گوہر نایاب* اور بہترین شریک حیات عطا کرے اس گروپ کی خاصیت کیا ہے معلوم couples بہت اچھے ہیں سب کے عمران بھائی فہیم باجی فوزیہ باجی ان کے شوہر رازق ان کی اہلیہ اشرف سے ان کی جوڑی کوثر حیات صاحبہ و اطہر بھائی فرحت باجی حبیب بھائی عبدالستار سر انکی اہلیہ بس میں دعا کرتا ہوں ہمارے گروپ کے جتنے کنوارے ہیں اللہ ان کی جوڑی جلد سے جلد ان سے  ملا دے اور انھیں خوش و خرم رکھ۔ شادیوں کے رقعہ گروپ پر پوسٹ کردیا کرے تاکہ جن کی شادی ہوجائے ان کا علم ہو ورنہ ہم انھیں دعاؤں میں یاد رکھے گے ان کی دوسری تیسری ہوتے رہے گی۔ اشرف سر پڑھ کر خوش مت ہو آپ کی شادی کا علم سب کو ہے۔ 
کیا ملے گا تجھے بکھرے ہوئے خوابوں کے سوا
ریت پر چاند کی تصویر بنانے والے
*ثنا ثروت صاحبہ*

*کبھی کتابوں میں پھول رکھنا* *کبھی درختوں پر نام لکھنا*
*ہمیں بھی ہے آج تک وہ نظر سے* *حرف سلام کرنا*
بشری اچھا ہے حرف سلام
 
❤️❤️ *جج کی پسند کے اشعار* ❤️❤️



*دل    ڈھونڈتا    ہے   پھر   وہی   فرصت  کے  رات دن* 
*بیٹھے        رہے       تصورِ       جاناں         کئے     ہوئے*
شکیب الحسن سر دل کو کیا ہوا ایک ہی شعر پر آپ نے بس کیا۔

*صدیوں لہو سے دل کی حکایت لکھی گئی* 
*میری وفا گئی نہ تری بے رخی گئی*
آج کل کے لوگ ایسے ہو گئے ہیں کیا کر سکتے *قاضی فوزیہ انجم باجی* مگر بھائی جان ایسے نہیں ہے ہاں بہت اچھے انسان ہے  


*تیری یادوں کے راستے کی طرف*
*اک قدم بھی نہیں بڑھوں گا میں*

*دل تڑپتا ہے تیرے خط پڑھ کر*
*اب تیرے خط نہیں پڑھوں گا میں*

*بھائی عبدالرازق حسین* یہ جون ایلیا کو کوئی کام دھندا نہیں تھا خطوط پر بہت شعر کہے انھوں نے۔ بہت اچھا شعر ہے انتخاب آپ کا بہت اچھا ہے
*برسوں سے کان پر ہے قلم اس امید پر*
*لکھوائے مجھ سے خط مرے خط کے جواب میں*
حسرت دل نامکمل ہے کتاب زندگی
جوڑ دے ماضی کے سب اوراق مستقبل کے ساتھ
آمین


*ڈاکٹر جواد احمد صاحب*
بندے کے قلم ہاتھ میں ہوتا تو غضب تھا
صد شکر کہ ہے کاتب تقدیر کوئی اور
فوزیہ باجی

*خان محمد یاسر* 
خادم 
بزم محفل مشاعرہ

Saturday, August 27, 2022

ماں


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
محترم احباب بزم محفل مشاعرہ 14 اگست 2022 کو ایک تصویر دی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا تھا کہ ایک معصوم بچہ جنازے کے ساتھ بیٹھا ہوا ہے اور یہ شاید وہ جنازہ اس کے ماں کا یا باپ کا ہوسکتا ہے۔ 
دنیا یہی سوچتی ہے کہ کیا شئے ہے ماں ۔ سچائی کا پیکر ہے ماں ، لازوال محبت کا نمونہ ہے ماں، شفقت کا سمندر ہے ماں، تڑپ کا دریا ہے ماں ، قربانی کا سیلاب ہے ماں، مہربانی کا خزانہ ہے ماں۔۔ تین حرفوں کا لفظ 'ماں'ناقابل فراموش رشتہ ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔
دنیا میں ماں کے رشتہ کو ہر کوئی اپنے اپنے انداز اور الفاظ میں بیان کرتا ہے۔کوئی جذباتی ہوکر بیان کرتا ہے اس رشتہ کو،کوئی بغیرایک لفظ ادا کئےآنکھوں سے بیان کر دیا ہے ماں کی قدرکو،کسی نے کہا کہ ماں کی محبت ہمالیہ کا وہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلندیوں کو آج تک کوئی چھو نہ سکا ۔کسی نے کہا کہ ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی، کسی کا کہنا ہے کہ کے بارے میں لکھنا سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہے۔
ماں بڑا پیارا لفظ ہے جسے انسان اپنے دل کی گہرایوں سے اداکرتا ہے۔بچپن سے لیکر عمر کے ہر مرحلے میں وہ ماں کی ممتاکا محتاج رہتا ہے۔اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے اسی سے توقع رکھتا ہے۔ماں کے بغیر گھر سنسان اور زندگی ویران ہوتی ہے۔ برکت کا راستہ ماں باپ کی خدمت سے ہی آسان ہوتا ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ ۔۔اللہ تعالی قُرآن پاک میں فرماتے ہیں : ترجمہ- تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے (فرض کر دیا ہے) کہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔
  باپ وہ ہستی ہے جو اپنے اہل خانہ کی کفالت کے لیے دن رات محنت کرتا رہتا ہے۔ نہ اس کو اپنے آرام کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی اپنے صحت کی۔ وہ اپنے دن رات صرف اس جہد میں صرف کرتا ہے کہ کچھ اور محنت کرلوں تو اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ کرلوں۔ اپنی اولاد کی ہر اس خواہش کو پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے جو وہ اپنے بچپن میں پوری نہیں کرپایا۔ مگر آج اخلاقیات کی تعلیم کی کمی کی وجہ سے والدین کی قدر اولاد کی نظروں میں کم ہوگئی ہے وہ اسلامی تعلیمات سے دور ہوگئے ہیں انگریزی تعلیم نے ادب سے اور اخلاقی تعلیم سے دور بہت دور کر دیا ہے۔ ہم اس عنوان کے لیکر بیٹھ جائے تو بہت کچھ لکھ سکتے اور بول سکتے مگر یہاں موقع نہیں۔ چلئے دیکھتے ہیں آج کے نتیجے کیا نصیحت کرتے ہیں اور اپنا مقام بناتے ہیں۔
اس سے پہلے مسعود رانا صاحب کی اس غزل کو پھر ایک بار ضرور پڑھ لیجیے
موت کی آغوش میں جب تھک کے سوجاتی ہے ماں
تب کہیں جاکر رضا تھوڑا سکوں پاتی ہے ماں​

موت کی آغوش میں بھی کب سکوں پاتی ہے ماں
جب پریشانی میں ہوں بچے تڑپ جاتی ہے ماں​

جاتے جاتے پھر گلے بچے سے ملنے کے لئے
توڑ کر بند کفن باہوں کو پھیلاتی ہے ماں​

روح کے رشتوں کی یہ گھرائیاں تو دیکھئے
چوٹ لگتی ہے ہمارے اور چلاتی ہے ماں​

بھوکا سونے ہی نہیں دیتی یتیموں کو کبھی
جانے کس کس سے کہاں سے مانگ کر لاتی ہے ماں​

ہڈیوں کا رس پلاکر اپنے دل کے چین کو
کتنی ہی راتوں کو خالی پیٹ سوجاتی ہے ماں​

جب کھلونے کو مچلتا ہے کوئی غربت کا پھول
آنسووں کے ساز پر بچے کو بھلاتی ہے ماں​

ماردیتی ہے طمانچہ گر کبھی جذبات میں
چومتی ہے لب کبھی رخسار سہلاتی ہے ماں​

کب ضرورت ہو مِری بچے کو اتنا سوچ کر
جاگتی رہتی ہے ممتا اور سوجاتی ہے ماں​

گھر سے جب پردیس کو جاتا ہے گودی کا پلا
ہاتھ میں قرآں لئے آگن میں آجاتی ہے ماں​

دیکے بچے کو ضمانت میں رضائے پاک کی
سامنا جب تک رہے ہاتھوں کو لہراتی ہے ماں​

لوٹ کر واپس سفر سے جب بھی گھر آتے ہیں ہم
ڈال کر باہیں گلے میں سر کو سہلاتی ہے ماں​

ایسا لگتاہے کہ جیسے آگئے فردوس میں
کھینچ کر باہوں میں جب سینے سے لپٹاتی ہے ماں​

دیر ہوجاتی ہے گھر آنے میں اکثر جب ہمیں
ریت پہ مچھلی ہو جیسے ایسے گھبراتی ہے ماں​

مرتے دم بچہ نہ آئے گھر اگر پردیس سے
اپنی دونوں پتلیاں چوکھٹ پہ رکھ جاتی ہے ماں​

حال دل جاکر سنا دیتا ہے معصومہ کو وہ
جب کسی بچے کو اپنی قم میں یاد آتی ہے ماں

تھام کر روضے کی جالی جب تڑپتاہے کوئی
ایسا لگتاہے کہ جیسے سر کو سھلاتی ہے ماں​

گمرہی کی گرد جم جائے نہ میرے چاند پر
بارش ایمان میں یوں ہرروز نھلاتی ہے ماں​

اپنے پہلو میں لٹاکر روز طوطے کی طرح
ایک بارہ پانچ چودہ ہم کو رٹواتی ہے ماں​

عمر بھر غافل نہ ہونا ماتم شبیر سے
رات دن اپنے عمل سے ہم کو سجمھاتی ہے ماں​

دوڑ کر بچے لپٹ جاتے ہیں اس رومال سے
لےکے مجلس سے تبرک گھر میں جب آتی ہے ماں​

یاد آتا ہے شب عاشور کا کڑیل جواں
جب کبھی الجھی ہوئی زلفوں کو سلجھاتی ہے ماں​

اللہ اللہ اتحاد صبر لیلا اور حسین
باپ نے کھینچی سناں سینے کو سہلاتی ہے ماں​

سامنے آنکھوں کے نکلے گر جواں بیٹے کا دم
زندگی بھر سر کو دیواروں سےٹکراتی ہے ماں​

سب سے پہلے جان دینا فاطمہ کے لال پر
رات بھر عون ومحمد سے یہ فرماتی ہے ماں​

یہ بتا سکتی ہے بس ہم کو رباب خستہ تن
کس طرح بن دودھ کے بچے کو بھلاتی ہے ماں​

شمر کے خنجر سے یا سوکھے گلے سے پوچھئے
ماں ادھر منھ سے نکلتاہے ادہر آتی ہے ماں​

اپنے غم کو بھول کر روتے ہیں جو شبیر کو
ان کے اشکوں کے لئے جنت سے آجاتی ہے ماں​

باپ سے بچے بچھڑجائیں اگر پردیس میں
کربلا سے ڈھونڈنے کوفے میں خود آتی ہے ماں​

جب تلک یہ ہاتھ ہیں ہمشیر بے پردہ نہ ہو
ایک بہادر باوفا بیٹے سے فرماتی ہے ماں​

جب رسن بستہ گزرتی ہے کسی بازار سے
ایک آوارہ وطن بیٹی کو یاد آتی ہے ماں​

شکریہ ہو ہی نہیں سکتا کبھی اس کا ادا
مرتے مرتے بھی دعا جینے کی دے جاتی ہے ماں​


   🌹🌹   *اعزازی انعام* 🌹🌹

تجھ سا ملے گا ماں نہ کوئی معتبر مجھے
رہنے دے زیر پا تو یوں ہی عمر بھر مجھے
*آفرین خان*

اس دل سے تیری یاد کے ہالے نہیں گئے
تو جا چکاہے تیری یاد کےاجالے نہیں گئے
*مرسلہ عبداللہ خان ممبئی*
دور ہونے کا درد کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
تنہا راتوں میں رونا کیسا ہوتا ہے کوئی ہم سے پوچھے
*محترمہ فریسہ جبین باجی*

ہر روز ماں کے چہرے کو تکتا تھا پیار سے‫
ہر روز حج میں کرتا تھا احرام کے بغیر
*عالیجناب سید عبدالستار سر*

 1️⃣1️⃣  *انعام اول* 1️⃣1️⃣
اے فردوس تیری عظمت کی عقیدت کا  مقام  اپنی  جاہ

ھم نے تو تیری اوقات کو فقط ماں کے قدموں تلے دیکھا
*محترمہ فریسہ جبین باجی*

‏ماں کے ہنستے..!ہوئے چہرے کا بھرم ہے ورنہ..!
زندگی یوں..! تو نہیں ہے کہ گزاری جائے..
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*

ممتا کی تعریف نہ پوچھو
چڑیا سانپ سے لڑ جاتی ہے
*ثنا ثروت صاحبہ*
🥈🥈  *انعام دوم* 🥈🥈
ستارے جیسی روشن ہیں۔ میری پیشانی اب
جب سے میری ماں نے اسے چوما ہے
*ڈاکٹر نسرین سلطانہ صاحبہ*
یتیمی ساتھ لاتی ہے زمانے بھر کے دُکھ عابی
سُنا ہے باپ زندہ ہو تو کانٹے بھی نہیں چُبھتے
*فہیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

وہ اکثر خواب میں آکر میری حالت پہ روتی ہے
کہ زیر خاک بھی ماں کی پریشانی نہیں جاتی
*گوہر نایاب خان*
🥉🥉  *انعام سوم* 🥉🥉
دعا کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے لرزتا ہوں
کبھی دعا نہیں مانگی تھی ماں کے ہوتے ہوئے
*محترمہ قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*

بس ایک ماں کی محبت دکھائی دیتی ہے
زمیں پہ ایک ہی عورت دکھائی دیتی ہے

اے بوڑھی ماں تیرے چہرے کی جھریوں کی قسم
ہر اک لکیر میں جنّت دکھائی دیتی ہے
*مسعود رانا صاحب*

سو ماں کی قبر پہ پہنچا لپٹ کے رونے لگا
دلیر بیٹا کسی بات پر دکھا ہوا تھا
*محترم وسیم راجا صاحب*

Wednesday, June 15, 2022

تشنگی


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 
*پھر طبیعت میں کیوں نہ روانی آئے* 
*کسی پیاسے کے سامنے اگر پانی آئے*
مراسلہ *سید عبدالستار سر*
محفل کی آن بان شان😘
احباب بزم محفل مشاعرہ امید ہے آپ خیریت سے ہوگے میں بھی خیریت سے ہوں اور آج رات 11:20 کی دیوگیری ایکسپریس سے ممبئی کے لیے روانہ ہو جاؤں گا۔ ممبئی سے 20 جون کی صبح میرا جہاز ممبئی سے جدہ کے لیے پرواز کرے گا۔ آپ تمام احباب کا اس گروپ کی کامیابی اور کارکردگی میں بہت ساتھ رہا اس گروپ کے تمام احباب کا میں خصوصی طور پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اور اللہ سے دعا کرتا ہوں کہ وہ ہر ایک کو حج بیت اللہ کی سعادت نصیب فرمائے بار بار بار بار اپنے گھر کی زیارت نصیب فرمائے اور میرا اور تمام امت مسلمہ کا خاتمہ ایمان پر فرمائے۔ اور اللہ سے مزید دعا ہے کہ وہ آپ تمام احباب کے مسائل کو حل فرمائے مشکلات کو آسان کرے دونوں جہاں میں کامیاب کرے کسی کا محتاج نہ رکھے۔ آپ کے جائز خواہشات کو پورا کرے *آپ کی پیاس کو تشنگی کو بجھائے* اور شاید میرا عنوان بھی یہی تھا۔
عبدالستار سر نے کہا تھا کہ دیکھنا ہے کون کتنا پانی پیتا ہے؟ یا  پلاتا ہے۔ اور یہ بات بھی صحیح کہا کہ جب ایک پیاس بجھ جاتی ہے تو دوسری پیاس بھڑک جاتی ہے۔


🌹🌹 *انعام اول*🌹🌹

آنکھوں کی تشنگی کا تمہیں تجربہ نہیں
تم دیکھتے رہوگے تو بڑھتی ہی رہے گی
مراسلہ *سید عبدالستار سر*
‏مری تشنگی, مری بے بسی, مری آرزو ,مری جستجو

اگر ایک بار تو جان لے تو کبهی نہ مجهکو جدا کرے
مراسلہ *ابرار علی خان اکبر علی خان*
میں دشت دشت رسوا تو سراب سا مسلسل
میں لمحہ لمحہ تنہا __ تو خواب سا مسلسل

مشہور ہیں نگر میں میری تشنگی کے قصے
میں قریہ قریہ پیاسا ___ تو آب سا مسلسل
مراسلہ *محمد وسیم راجا*

🥈🥈 *انعام دوم* 🥈🥈
صحرا کی طرح تکتی ہے بادل کی طرف آنکھ 
ملتی ہی نہیں پیاس کو چھاگل سے رہائی 

مراسلہ *عبدالرازق حسین*

میں وہ دریا ہوں جو گھر سے کبھی نکلا ہی نہیں
پیاس لے کر میری چوکھت پر سمندر آئے
مراسلہ *انصاری شکیب الحسن*

کہتی ہے تشنگی کسی دریا سے جاملو
فطرت کا کیا کروں جسے صحرا سے عشق ہے
مراسلہ *ثنا ثروت صاحبہ*
 
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے

کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے

سب کو سیراب وفا کرنا خود کو پیاسا رکھنا 

لے ڈوبے گا اے دل تیرا دریا ہونا

مراسلہ *گوہر نایاب فضل اللہ خان*


   🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉
کہیں بجھتی ہے دل کی پیاس اک دو گھونٹ سے انظرؔ
میں سورج ہوں مرے حصے میں دریا لکھ دیا جائے

مراسلہ: *قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*
 ہونٹوں کو روز اک نئے دریا کی آرزو 
لے جائے گی یہ پیاس کی آوارگی کہاں
مراسلہ *مرزا حامد بیگ صاحب*
 
میں پیاس ہوں جیسے صحرا کی تو چشمئہ ٹھنڈا ٹھار پیا 
مجھے عشق اڑائے پھرتاہے اس پار کبھی اس پار پیا

مراسلہ *محمد عقیل سر* 

خوابوں کی وادی میں ملے ہیں
بیتے لمحے گزرے زمانے
مراسلہ : *خان آفرین*

پھر کسی پیاس کے صحرا میں مجھے نیند آئے
اور میں خواب میں مانگوں تجھے پانی کی طرح
مراسلہ *فہیم خاتون مسرت باجی*

آب ہے صحرا میں تشنگی کے بعد عشق حقیقی۔۔۔ 

پھر یوں سارا حسن خلق بھی بے وجہ لگتا ہے خوشی۔۔

کاش تیری بندگی کی تشنگی مجھ میں آب جیسی ہوتی قسامِ ازل۔۔۔ 
 جام کے جام نوش کرتی خوشی عالم عشق میں تیرے بدل بدل۔۔۔۔ 
*ازقلم۔۔۔ خوشی*


موبائل اور اِنٹرنیٹ کی سہولیات کی وجہ سے دنیا مٹھی میں ہوگئی دور کے لوگ بہت قریب ہوگئے اور قریب کے بہت دور یادوں کے صحرا میں اپنوں کے چہرے کہیں کھو گئے پھر بھی ابرا کا یہ شعر تشنگی دور کرنے کے لیے بہت صحیح ہے اور میں بھی ایک صحرا میں جا رہا ہوں جہاں آپ کے چہرے مجھے یاد آئے گے۔

 *سرِ صحرا مسافر کو ستارہ..!*
*یاد رہتا ہے..!!*


*میں چلتا ہوں مجھے چہرہ..!*
*تمہارا یاد رہتا ہے.*

Sunday, June 12, 2022

بساط

زندگی کی بساط پر بچھا شطرنج کا یہ کھیل ہے۔ اس بساط پر ہم انسان مہروں کی مانند ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ میں فلاں کو ہرا کر میں آگے نکل جاؤں گا میں جو چاہتا ہوں وہ کر سکتا ہوں جسے چاہیں اسے مات دے سکتا ہوں مگر حقیقت سے بے خبر یہ انسان خواہشات کی لگام تھامے اپنے رب کو بھول کر من چاہی گزارنے والا یہ انسان آخر میں خود مات کھا جاتا ہے اور گمراہی و ناکامی  کے ایسےگڑھے میں جا گرتا ہے جہاں سے جیت کے کوئی امکان نظر نہیں آتے بساط بچھانے والے نے بساط بچھادی مہرے کھڑے کردیئے انھیں اختیار بھی دے دیا کیسی چال چلنا ہے اور ساتھ ہی اچھے اور برے کی تمیز بھی سکھا دی کہ کس چال سے فائدہ ہوگا کونسی چال نقصان پہنچائے گی۔ لیکن یہ ابن آدم سدا سے نادان رہا اور سدا ہی نادان رہے گا وہ بھول گیا یہ بساط اللہ نے بچائی ہے وہی اس کے نظام کو چلا رہا ہے میں کیوں اس میں مداخلت کروں وہ یہ بات نہیں سمجھ رہا۔
ہم کو ہمارے نبی نے امت بنا کر گئے آج ہم فریق میں بٹ گئے۔ بچپن میں کسان کی کہانی سنا کرتے تھے کہ کسان تھا اس کا آخری وقت آگیا اس کو اپنی اولاد کی کاہلی اور سستی کی بڑی فکر ہوئی وہ ان کی روز کی لڑائی جھگڑے سے بیزار ہو گیا تھا وہ ان میں اتحاد پیدا کرنا  چاہتا تھا اس نے سب کو ایک ایک لکڑی دی اور اس کو  توڑنے کے لیے کہا پانچوں لڑکوں نے با آسانی اس کو توڑ دیا پھر اس نے ان ٹوٹیں ہوئی لکڑیوں کا گھٹا بنا کر دیا اور کہا توڑوں تو کوئی بھی اس گھٹے کو  نہیں توڑ سکا پھر بتایا کہ اتحاد کی طاقت کیا ہوتی ہے آپس میں مل جل کر رہو کوئی تمہیں کمزور نہیں کرے گا سستی اور کاہلی کو دور کرنے کے لیے کہا کہ کھیت میں خزانہ چھپایا ہوا ہے اس کو تلاش کرو اور لے لو بچوں نے محنت کی کچھ بھی حاصل نہیں ہوا تو کہا بیج بو دو پھر فصل آئی اس کو فروخت کیا تو بہت پیسے کما لیے ہم ایسی کہانیاں سن کر بڑے ہوئے۔
 ہم (سے مراد آپ اور میں) نے زندگی کی بساط پر کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا سب کے ساتھ انصاف کا معاملہ کیا کسی کی دل آزاری نہیں کی اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سماج میں ایک مقام ہے ہم بادشاہ تو نہیں بنے مگر اس پیادے کی مانند ڈٹے ہوئے ہیں اور اس بساط پر کھڑے ہیں جہاں بادشاہ کو مات ہونے نہیں دے رہے۔
آج ایک سماج بساط بچھا رہا ہے جذبات کا وہ آپ کو ورغلا رہا ہے تاکہ آپ جذبات میں آئے کوئی غلط قدم اٹھائے اور بساط کے باہر ڈھکیل دیئے جائے اور ہمارا کھیل ختم ہوجائے۔ ہم عشق نبی ﷺ  میں اپنی جان کی بازی لگانے والے لوگ ہے۔ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ حضرت عمر نے کہا  جس کا مفہوم کہ  آپ سے اپنی جان سے زیادہ محبت نہیں کرتا جس پر نبی ﷺ نے کہا تمہارا ایمان کامل نہیں پھر انھوں نے کہا کہ میں اپنی جان سے زیادہ آپ سے محبت کرتا ہوں تو کہا اب تمہارا ایمان کامل ہوا۔
          بنی ﷺ سے محبت کے جھوٹے وعدے کرنے والے کتنے ہیں نبی کی سنت کیا ہے یہ نہیں معلوم پھر دعوی کرتے ہیں نبی کے امتی ہونے کا بساط بنانے والے نے آخری نبی کو بھیجا اپنی حجت پوری کہ اچھا برا بتایا اب عمل کرنا اور بازی جیتنا ہمارا کام۔ ہم اپنے آپ کو کسی سے بڑا نہ سمجھے علم والا نہ سمجھے طاقت والا نہ سمجھے انکساری عاجزانہ زندگی گزارے۔ 
بات کہاں سے شروع کی کہاں ختم کچھ سمجھ نہیں آیا ہاں ایک بات ضرور کہوں گا کہ باطل طاقتیں آپ کی چال کو پلٹا چاہتی ہیں مگر آپ اور میں اس وقت کامیاب ہونے جب ہم چوکنے رہیں گے۔ ان کی چالوں سے واقف رہیں گے اپنی اولادوں کو دنیا کی تعلیم سے پہلے اللہ اور نبی کے نام سے واقف کرائیں گے۔ عشق خدا میں خلیل کا دعوی اور عشق نبی میں صدیق کا دعوی سکھائیں گے تو بچھی ہوئی بساط کی بازی ہم ماریں گے ورنہ عشق مجازی میں سب ختم ہوجائے گا۔
خیر آج بہت ہو گیا اللہ خیر کا معاملہ کرے ملک کے حالات مسلمانوں کے لیے خوشگوار اور سازگار بنائیں۔ اس دعا کے ساتھ نتیجہ پیش خدمت ہے۔
 🌹🌹   *انعام خصوصی* 🌹🌹
مات دینے کا ارادہ کر لیا
شاہ کے آگے پیادہ کر لیا

ایک لقمہ اور دو خالی شکم
سو اسی کو آدھا آدھا کرلیا
@⁨Waseem Raja Sir⁩ 
شطرنج کی سی ہے یہ عاشقی تیری۔۔۔۔ 
ہر چال سوچ سمجھ کر آخر تونے چلی۔۔۔ 
میں رہ گئی تکتے تیری چھڑکی بساط کو۔۔۔ 
تو رہ گزر پھر جیت کر دل میرا چلا گیا۔۔۔ 
انداز میں سنجیدگی ایسے لئے تھا تو۔۔۔۔ 
چہرہ میرا  دل دیکھ یوں  ششدر بڑا ہوا۔۔ 
پھر آخری پاری یوں کھیلی تونے کیا کہے۔۔۔ 
تیرا زمن جیتا خوشی، وہ ہجر میں رہ گیا۔۔ 

از قلم۔۔ خوشی @⁨Miss Khushi⁩ 

سب کو خوش کرتے کرتے آدھا سا رہ گیا ہوں 
اس دل فریب دنیا میں سادہ سا رہ گیا ہوں 
اب کی بار سوچتا ہوں خود غرض ہو جاؤں 
ہر شطرنج کی چال میں اک پیادہ سا رہ گیا ہوں

وجود کی بساط پر... بڑی عجیب مات تھی 
یقین لٹا کے چل پڑے، گمان بچا کے رکھ لیا
@⁨Fareesa Baji Amanullah Motiwala⁩
تخت شطرنج پر بس ایک پیادہ ہے میرا
فوج تو گم ہے مگر عزم ذیادہ ہے میرا
@⁨ثروت باجی⁩  

 Frist prize goes to 
دل کی بساط پہ شاہ پیادے کتنی بار اتاروگے 
اس بستی میں سب شاطر ہیں تم ہر بازی ہاروگے

تم اپنی شرطوں پہ کھیل کھیلو 
میں جیسے چاہوں لگاوں بازی 
اگر میں جیتا تو تم میرے ہو 
اگر میں ہارا تو میں تمہارا

@⁨Mohd Aqueel⁩ sir

‏کھیل جو بھی تھا جاناں اب سوال کیا کرنا
جیت جس کسی کی ہو، ہم نے  ہار  مانی ہے
@⁨Waseem Raja Sir⁩ 

سمجھ جاتا ہوں_____چالوں کو مگر کچھ دیر لگتی ہے

وہ بازی جیت جاتے ہے______ میرے چالاک ہونے تک
@⁨Gohar⁩ 

گیا تھا ترک محبت کا فیصلہ کرنے
مگر میں آخری بازی بھی اس سے ہار آیا
@⁨سید وقار احمد مشاعرہ گروپ⁩ 
جہاں شطرنج بازندہ فلک ہم تم ہیں سب مہرے
بسان شاطر نو ذوق اسے مہروں کی زد سے ہے
 @⁨Razeq Husain⁩ sir



اُلفت بھی انوکھی بازی ہے
 چال اس کی نصیر اُلٹی پُلٹی
وہ ہار کـے جیتا کرتـے ہیں 
ہم جیت کے ہارا کرتے ہیں

 
مانا  حسین  تھا  وہ  بلا  کا  ذہین بھی
وہ  شخص  بے مثال  تھا  کچھ بھی نہیں بنا
شہہ  مات  ہو  گئی پھر  دل  کی  بساط پر
کھیلا  مگر  کمال  تھا  کچھ  بھی  نہیں بنا

@⁨Abdus Sattar Sir Nanded⁩ 

Second prize goes to
بحث شطرنج شعر موسیقی
تم نہیں تھے تو یہ دلاسے رہے
@⁨Afreen Huma Javed⁩ 
ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں
تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی
@⁨Fauzia Baji Malik Amber⁩ 

*انعام سوم*

شطرنج میں جی ان کا بہل جائے تو اچھا
اے مہرؔ یہ چال اچھی ہے چل جائے تو اچھا
@⁨Bushra Jabeen Baji⁩

Sunday, May 29, 2022

رشتے

پہلے زمانے میں ایک آدمی کے کوئی سولہ سترہ بچے اور 4 بیویاں ہوتی تھیں ،،
بچوں میں سے کسی نے بھی اسکول کا منہ نہ دیکھا ،، اردو پڑھنا بھی مسجد میں جاکر سپارہ پڑھ کر سیکھا ،جس نے بھی سیکھا ،، 

بچے سر اٹھاتے تو فصلوں اور کھیتوں میں دھکیل دئے جاتے ،، جو گائے دوسرے گاؤں سے جفتی کرا لاتا وہ پرائمری پاس کر لیتا ،جو ہل کی ہتھی پکڑ لیتا وہ میٹرک پاس کر لیتا ،جو کسی مل میں ملازم ھو جاتا وہ ایم اے کر لیتا ،، یوں والدین کا خرچہ کچھ نہیں تھا منافع ہی منافع تھا ،، لہذا والدین کبھی فرسٹریشن کا شکار ہو کر بچوں کی ماں بہن ایک نہیں کرتے تھے ،، راوی چین ہی چین لکھتا تھا ،بچے کی مونچھیں بھیگتی یا مسیں پھوٹتیں تو اسی حویلی میں سے ایک کڑی پکڑ کر اس کے ساتھ بیاہ دی جاتی اور چارپائی اور پانی کی بالٹی چھت پر چڑھا دی جاتی ،، شادیاں عموماً 16 سال کا لڑکا اور 14 سال کی لڑکی کے حساب سے ہوتی تھیں،، سارے دیہات کا تقریباً یہی رواج تھا ،، والدین بھی سوکھی تھے ،بچے ایک منہ اور دو ہاتھ لے کر آتے تھے ،، بچے دس بھی ہوں تو مونگ پھلی بھی چن کر لاتے تو بھی اپنی اپنی اس دن کی روٹی خود کما کر شام کو گھر آ جاتے تھے ،، 

نہ زیور بکتا تھا ، نہ ایجنٹوں کا دھوکا تھا ، نہ ادھر ادھر کے دھکے تھے ، نہ والدین کے کوسنے تھے اور نہ اولاد کا ڈیپریشن تھا سالوں میں بھی کوئی معاشی خود کشی نہیں ہوتی تھی ،جو ایک آدھ کیس دو چار سال میں ہوتا وہ عشق کی ناکامی کے سبب ہی ہوتا تھا ،، فرسٹریشن دونوں نسلوں میں نہیں تھی ،،،،،،،،،،،،

پھر دور تبدیل ہوا ،، لوگوں نے زمینیں بیچیں ، زیور بیچے اور بچوں کو ایران کے رستے یونان امریکہ فرانس آسٹریلیا اور دبئی کی طرف روانہ کیا ،، کچھ پہنچے کچھ رستے میں ہی خواہشات کے جنگل میں مر کھپ گئے ، جو پہنچے ان کا حال اے ٹی ایم یا گو کیش go cash کارڈ کا سا تھا ،، وہ کما کر بھیجتے گئے اور کوشش کی کہ ان کی اولاد پڑھ لکھ جائے اور کسی اچھے جاب پر لگ جائے ،، تعلیم میں مقابلہ بازی شروع ہوئی کیونکہ انگلینڈ کے لوگ پڑھے لکھے تھے وہ آفس جاب میں لگتے جبکہ ہندوستانی نچلے درجے کے کام کرتے تھے ،،

دیہات میں بجلی آئی تو ٹیلی ویژن کو بھی لائی ،اور دیگر بجلی کا سامان بھی امپورٹ ہوا ، والدین مشین کی طرح کما کر اولاد پر لگاتے چلے گئے اور اپنی جوانی اور اس سے متعلق جذبات کو قربان کر دیا ،، والد 4 ، 4 سال بعد ملک کا چکر لگاتے وہ بھی ایک ماہ کے لئے مہمان کے طور پر آتے ،، ایک ماہ میں بچوں کا کیا پتہ چلتا ہے ،فاتحہ خوانی پوری نہیں ہوتی تھی کہ چھٹی ختم ہو جاتی ،، سہولیات ملیں تو بچے بگڑتے چلے گئے اور والدہ چھپاتی چلی گئی اور مرد اندھا دھند 16 ، 16 گھنٹے کام کر کے کما کر گھر بھیجتے چلے گئے،،

اولاد پر لعن طعن شروع ہوا ، اخراجات کا حساب کتاب شروع ہوا ، تعلیم کو کوسا گیا اور والدین اور بچوں کے درمیان سرد جنگ شروع ہو گئی،،تعلیم دن بدن ٹف ھوتی چلی گئی وہ آج سے چالیس سال پہلے والی تعلیم نہیں تھی جب انگلش چھٹی کلاس سے شروع ہوتی تھی اور میٹرک تک ہمیں انگلش کے حروفِ تہجّی ہی درست کرنا سکھایا جاتا ،، مائی بیسٹ فرینڈ ، مائی فادر ،، ہنگری فاکس اور تھرسٹی کرو پر میٹرک ہو جاتی تھی ،، اب انگلش کچی یعنی کے جونیئر کے جی ہی شروع ہو جاتی ہے ، بستے بڑے ہوتے گئے اور رشتے چھوٹے ہوتے چلے گئے ،، ساری ساری رات پڑھ کر بھی بچہ پاس نہ ہو تو بھی گھر میں اس قدر ذلیل کیا جاتا ،، اس کو ماں بہن سے گالیاں دی جاتیں ، مار اس قدر شدید کہ پڑوسی آکر چھڑائیں تو چھڑائیں ماں بھی قریب جانے کی ہمت نہ کرے ،، یوں والدین اور اولاد کے درمیان نفرت کی نادیدہ مگر محسوس دیوار بننا شروع ہوئی ،،

ریزلٹ کے دنوں میں نہر کے پلوں پر پولیس پہرہ لگ جاتا ہے کیونکہ ناکام ہونے والے بچے ریزلٹ سن کر گھر جانے کی بجائے قبر میں جانے کو ترجیح دیتے ہیں ،، والدین اپنی جگہ اخراجات کے گوشوارے دکھاتے پھرتے ہیں اور بچہ اپنے جسم پر پڑے نیل کے نشان دکھاتا پھرتا ہے ،، یعنی کہ اس تعلیم کی بجائے ، ان اخراجات کی بجائے کچھ بھی نہ ہوتا تو والدین اور اولاد کا تعلق تو قائم رہتا ،، جب ہر لمحہ ان اخراجات کو کوسا جاتا رہے ،، تو وہ ناسور بن جاتے ہیں ،، ایک عورت بیرون ملک سے آئی تو گاؤں کی ایک غریب عورت کے لئے ایک سوٹ لے کر آئی اور اس کو کہا کہ آپ یہ سلا کرپہن لیں ،، مگر اس عورت نے شاید وہ سوٹ اپنی بیٹی کو دے دیا ہو گا ،، لیکن یہ خاتون جہاں اس غریب عورت کو دیکھتی فورا ً پوچھتی کہ " ماسی وہ سوٹ ابھی نہیں سلوایا ؟ " یہاں تک کہ ماسی نے اس خاتون کو دیکھ کر ہی رستہ تبدیل کرنا شروع کر دیا ،، پھر وہ ان اوقات میں اس گلی سے گزرتی جب اس خاتون کے رستے میں ملنے کے امکانات نہ ہوتے ،مگر ایک دن صبح صبح بیچاری پکڑی گئی اور اس خاتون نے ابھی ماسی ہی کہا تھا کہ ماسی دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہو گئی " خدا کا واسطہ ہے اگر ایک سوٹ مجھے دے ہی دیا ہے تو اب مجھے جینے دو "

یہیں حال اولاد کا ہو جاتا ہے کہ خدا کا واسطہ ہے اگر پڑھا ہی رہے ہو تو یہ رات دن کا راگ بھیرویں مت سنایا کریں ، سن سن کر ڈیپریشن ہو گیا ہے ،،
 والدین بچے میں نفرت بہت پہلے سے بھر چکے ہوتے ہیں ،، جب اس کی شادی ہوتی ہے اور وہ کمانے لگتا ہے تو والدین سے اس کا رویہ سرد مہری کا ہوتا ہے ،جس سے سمجھا یوں جاتا ہے گویا کہ آنے والی نے کان بھرے ہیں ، ورنہ ہمارا چاند تو ایسا نہیں تھا ،، الغرض والدین سب کچھ داؤ پر لگا کر ، اپنی جوانی کی قربانی دے کر صرف اپنی بے احتیاطی کی وجہ سے بازی ہار جاتے ہیں ،، پھر جو بیٹے تابعدار ہوتے ہیں والدین خواہشات کا ایسا بار ان پر ڈالتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کے حقوق پورے کرنے سے عاجز آ جاتا ہے ،، یوں گھر کے اندر ایک جنگ شروع ہو جاتی ہے جب بیوی اپنے بچوں کا حق بھی پیچھے جاتے دیکھتی ہے ،، والدین ابھی بھی یہیں گردان کر رہے ہوتے ہیں کہ ہم نے اتنا لگایا ہے اور اتنا کھپایا ہے ،لہذا سب کچھ ہمارا ہے ،، اور حدیث کوٹ کی جاتی ہے کہ تو اور تیرا مال تیرے والد کے ہو ،، جبکہ شریعت میں اولاد کی موجودگی میں چھٹا حصہ والد کا ہے اور چھٹا حصہ ماں کا ہے بیوی کو اٹھواں حصہ ملتا ہے اور باقی اولاد کا ہے ،مگر اس حدیث کو بیان کر کے اولاد کا حق بھی مار لیا جاتا ہے،،

والد صاحب بیٹیوں کی شادی کے لئے 10 لاکھ اور اٹھارہ لاکھ مانگتے ہیں ،، پلاٹ اور مکان کی قسطیں الگ ہیں ،، گویا پوری کوشش کی جاتی ہے کہ کمانے والے بیٹے کو ہینڈ ٹو ماؤتھ رکھا جائے اور وہ اپنی بیوی اور بچوں کا کچھ بھی نہ بنا سکے ،، بیٹا اپنے بچے بھیج کر والدین کے تقاضے پورے کرے تو وہاں اس کے بچے بیمار ہو جائیں تو کوئی اسپتال لے جانے کا روادار نہیں ہوتا ،، بیٹا پیارا ہے اور اس کی بیوی اور اولاد سے دشمنی ہے ،، بیٹا ذہنی مریض بن جاتا ہے گھریلو سیاست سے ماحول کو آلودہ کر دیا جاتا ہے ،عین اس وقت جب کھانا لگ چکا ہے ، بچے بیٹھے ہوئے ہیں کہ بہن یا بھانجی کا فون آ جائے گا کہ کھانا ہمارے ساتھ کھانا ہے ، اور وہ بھی سب کچھ لگا لگایا بچوں کے سامنے پڑا رہ جاتا ہے اور وہ بھانجیوں کے ساتھ کھانے چلا جاتا ہے ،، بیوی اپنا سا منہ لے کر رہ جاتی ہے اور بہن بھائی کو گھر بلا کر بغلیں بجا رہی ہوتی ہے اور اس ڈھگے کو اس سیاست کی کوئی سمجھ نہیں لگتی ،، اس اولاد میں بھی پھوپھو اور چاچو اور دادا دادی کے خلاف نفرت بھرتی چلی جاتی ہے جو عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ ان کی ماں بھرتی ہے جبکہ اصل میں باپ اور ددھیال کا رویہ ان میں زہر بھرتا ہے ،، 
اب جب باری آتی ہے رشتے ناتوں کی تو پھر ایک دوسرے کے یہاں رشتے کرنے کا امکان ختم ہو چکا ہوتا ہے ،، اور دونوں فریق رشتے باہر ڈھونڈتے پھرتے ہیں ،، دادا دادی اپنی ہی اولاد کو ایک دوسرے کا اس قدر دشمن بنا دیتے ہیں اپنی سیاست کی وجہ سے کہ مزید رشتے داری ممکن ہی نہیں رہتی ، ہر فریق دوسرے سے بدکتا ہے کہ یہ میری بیٹی سے بدلے لے گا ،، اور ایک فریق کہتا ہے کہ انہوں نے پہلے میرا شوہر ورغلائے رکھا تھا اب میں بیٹا ان کو کیسے سونپ دوں ،،

الغرض ہندوستان میں اب برادری سسٹم صرف شناختی کارڈ میں باقی ہے ،، عملی طور پر اپنا وجود کھو چکا ہے ،، کوئی مانے یا نہ مانے حقیقت یہیں ہے ،،
درجہ بالا تصویر میں اب صرف میاں بیوی اور دو بچے رہ گئے کیونکہ وہ اپنا گھر اپنے والدین سے نفرت کرنے لگے ہیں کیونکہ اپنی انا کی خطر وہ انھیں اپنوں سے دور کر چکے ہوتے ہیں۔
پہلے ہم ایک گھر میں سات آٹھ بھائی بہن رہتے تھے اور ماں یا باپ کو اپنے بازو سلانے کے لیے لڑا کرتے تھے اب انھیں ماں بات کی لاپروہی کی وجہ سے ان کے گھر میں سے انھیں ہی نکالا جارہا ہے۔ میرے پاس ایسی کہیں مثالیں موجود ہیں جہاں اچھے خاصے گھروں میں والدین کے لیے جگہ نہیں۔
خیر آج جب میاں اور بیوی دونوں نوکری پر ہیں اور گھر میں بچوں کو سنبھانے والا کوئی نہیں تب یہ احساس ہوتا ہے کہ اپنے تو اپنے ہوتے ہیں ان سے روٹھ کر کہیں نہیں جا سکتے انھیں منائیں انھیں عزت دے ان کی قدر کریں دونوں اس دور میں ایک دوسرے کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ایک دوسرے کا سہارا بنیں اور دوسرے کے درد کی دوا بنیں۔ اور ایک بات غیروں کے طریقے کو مت اپناؤں کہ ہم دو ہمارے دو ایک گزارش ہر کوئی اپنا رزق لے کر آتا ہے جو آرہا ہے فقر و فاقے کی ڈر سے اسے قتل مت کروں اتنا کہہ کر میں اب نتیجے کا اعلان کرتا ہوں۔
*انعام خصوصی*
ہم نے اپنی مفلسی کا کچھ اس طرح رکھا بھرم

واسطے کم کرلیئے اور مغرور کہلانے لگے
*شیخ عبدالرازق حسین*
ساتھ رہنا ہو مگر رہنے کا سامان نہ ہو
ہائے احساس کا ایسا کبھی فقدان نہ ہو

 مشکل راہیں ہیں پر ترے ساتھ ہوں میں
ٹھیک ہو جائے گا سب کچھ، تو پریشان نہ ہو
*سید عبدالستار سر*

شکم کی آگ لیے پھر رہی ہے شہر بہ شہر
سگ زمانہ ہیں ہم کیا ہماری ہجرت کیا

افتخار عارف
مراسلہ *فھیم خاتون مسرت باجی*

غربت کی تیز آگ پہ اکثر پکائی بھوک
خوش حالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

اقبال ساجد
مراسلہ *مرزا حامد بیگ صاحب*


بستی سے رزق اٗٹھ گیا تو ہم بھی اٗٹھ گۓ
ہجرت مثال ِ مرگ تھی ! ٹالی نہیں گئ

شاھد ذکی
مراسلہ *محمد وسیم راجا* 

🌹🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹🌹

عزم و یقین ، حوصلے پل پل بہم رہے
 راہِ جنوں میں تم جو مرے ہم قدم رہے

شاعر : علیم اسرار ناندیڑ
مراسلہ:
*سید عبدالستار سر*



غربت میں بشر کے لیے سو طرح کا ڈر ہے
میرا تو سفر رنج و مصیبت کا سفر ہے
*سید وقار احمد سر*
🥈🥈🥈 *انعام دوم* 🥈🥈🥈
صعوبتوں کا سفر ہے سفر تمام تو ہو
ٹھہر بھی سکتا ہوں لیکن کوئی مقام تو ہو

*خان آفرین*

کچھ درد ایسے بھی ملے ہیں زندگی میں

جنہوں نے جان بھی لے لی زندہ بھی چھوڑ دی. ...
*خان گوہر نایاب* 

🥉🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉🥉

کسی کا ساتھ اگر ہو تو خوب ہے ورنہ،
سفر تو کرنا ہے ہم نے، سفر تو جاری ہے
*انصاری شکیب الحسن سر*

وہ کون ہے جو مرے ساتھ ساتھ چلتا ہے
یہ دیکھنے کو کئی بار رک گیا ہوں میں
*قاضی فوزیہ انجم صاحبہ*


خان محمد یاسر

Wednesday, May 11, 2022

جدائی

*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
احباب بزم محفل مشاعرہ 
رمضان المبارک کے بعد دوبارہ محفل میں رونق لوٹ آئی اس کے لیے اللہ کا شکر ہے۔ جویریہ جودت کی شادی بھی ہوگئی اس کی جویریہ کو اور ان کے اہل خاندان کو ہم تمام کی جانب سے دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد اور امید کرتے ہیں کہ وہ گروپ سے کبھی الگ نہین ہوں گی اپنے خاوند اور سسرالیوں کو وقت دے کر اپنی ذمہ داریاں نبھائے گی خاوند کو بھی اس محفل کا حصہ بنائے گی۔ 
ان شاءاللہ 
ابتدا شکیب بھائی نے بہت اچھی کی بہترین تمہید باندھا نتیجہ بھی بہت خوب تھا بھائی شکیب بھائی کی صلاحیتوں کا کیا کہنا اللہ ان کو خوش رکھے اور ان کی تمام تمناؤں کو پورا کرے۔ 
مگر سنیچر کے روز مقابلہ منعقد نہیں ہوسکا مقابلے کے لیے کوئی سامنے نہیں آیا خیر کوئی بات نہیں کیونکہ کل عبدالستار سر نے ان کی باری آنے پر سب کو بولنے پر مجبور کردیا اور سب نے بہت اچھا بولا۔ فھیم باجی ستار کی شکایت بھابی مت کیجیے کہ وہ گروپ پر بہت اچھی باتیں کرتے ہیں بتائیے کہ آج کل وہ گروپ پر نہیں آرہے اس سے گھر کا اور گروپ کا ماحول خوشگوار بنے رہے گا۔
میں اکثر اصل مدعے سے ہٹ جایا کرتا ہوں اب آتے ہیں نتیجے کی طرف  میں نے ایک تصویر مقابلے کے لیے دیا تھا جسے دیکھ کر ماضی کی یادیں تازہ ہوگئی زیادہ تبصرہ نہیں کروں گا کیونکہ ایک ایک شعر کہیں صفحات کو بھرنے کے لیے کافی ہے۔
پھر بھی خان گوہر نایاب صاحبہ نے ارسال ہوئی غزل
وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی 
کہ دھوپ چھاؤں کا عالم رہا جدائی نہ تھی 

نہ اپنا رنج نہ اوروں کا دکھ نہ تیرا ملال 
شب فراق کبھی ہم نے یوں گنوائی نہ تھی 

محبتوں کا سفر اس طرح بھی گزرا تھا 
شکستہ دل تھے مسافر شکستہ پائی نہ تھی 

عداوتیں تھیں، تغافل تھا، رنجشیں تھیں بہت 
بچھڑنے والے میں سب کچھ تھا، بے وفائی نہ تھی 

بچھڑتے وقت ان آنکھوں میں تھی ہماری غزل 
غزل بھی وہ جو کسی کو ابھی سنائی نہ تھی 

کسے پکار رہا تھا وہ ڈوبتا ہوا دن 
صدا تو آئی تھی لیکن کوئی دہائی نہ تھی 

کبھی یہ حال کہ دونوں میں یک دلی تھی بہت 
کبھی یہ مرحلہ جیسے کہ آشنائی نہ تھی 

عجیب ہوتی ہے راہ سخن بھی دیکھ نصیرؔ 
وہاں بھی آ گئے آخر، جہاں رسائی نہ تھی 

https://youtu.be/vee-ARvduA4
ضرور سنئیے۔

اکثر ہماری ناچاقیاں ہمارے اپنوں کو ہم سے دور کر دیتی ہے۔  جب کسی نا اتفاقی کا عمل ہو تو اس کی تحقیق کرنا بھی سوچ سمجھ کر فیصلہ کرنا کیونکہ آج ذرا ذرا سی بات پر رشتے ٹوٹ رہیں ہے اور شیطان تو بیٹھا ہی ہے رشتے توڑنے کے لیے وہ کہاوت ہے نا *عقلمند کو اشارہ کافی ہے*
🌹🌹🌹 *انعام خصوصی* 🌹🌹🌹

بحال کر یا مراسم کو توڑ دے یکسر
یہ درمیاں کی اذیت سے ان نکال مجھے
*شکیب الحسن سر*
جاتے ہو خدا حافظ ہاں اتنی گزارش ہے 

جب یاد ہم آ جائیں ملنے کی دعا کرنا 

*محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی*

💐💐💐   *انعام اول* 💐💐💐
 
مریضان محبت کو فقط دیدار یار کافی ہے
ہزاروں طب کے نسخوں سے نگا یار بہتر ہے
*محترمہ فرحت جبین صاحبہ*


کتنے دن بعد پھر آج ان سے ملاقات ہوئی
رک گیا وقت درخشندہ مری رات ہوئی
پھر نگاہوں نے نگاہوں سے سنا قصۂ شوق
پھر اشاروں ہی اشاروں میں ہر اک بات ہوئی
*خان آفرین*
ہواہے تجھ سے بچھڑنے کے بعد یہ معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی
*ثنا ثروت صاحبہ*

🥈🥈🥈  *انعام دوم* 🥈🥈🥈

جاتے جاتے ان کا رکنا اور مڑ کر دیکھنا
جاگ اٹھا آہ میرا درد تنہائی بہت

*محمد عقیل سر*

ایک نظر مڑ کر دیکھنے والے
کیا یہ خیرات پھر نہیں ہوگی؟
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*
 
اک بار اور دیکھ کر آزاد کر دے مجھے محسن
کہ میں آج بھی تیری پہلی نظر کی قید میں ہوں
*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب*
  🥉🥉🥉 *انعام سوم* 🥉🥉🥉
انا کے موڑ پربچھڑے تو ہم سفر نہ ملے 

ہم ایک شہر میں رہ  کر بھی عمر بھر نہ ملے 
*خان گوہر نایاب*
 
عین  ممکن ہے، بدل جائے ارادہ  اس کا
دیکھتے اس کو رہو ،تانگہ گزر جانے تک
          *ساجد مقصود صاحب*

بہت بہت شکریہ اپ تمام احباب کا کہ آپ نے تصویر پر شعر مقابلے میں شرکت کی اور محفل کو رونق بخشی۔
*خان محمد یاسر*