Sunday, December 26, 2021

انتظار

محترم احباب بزم محفل مشاعرہ
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
آپ تمام کا بہت بہت شکریہ میری ۳۸ ویں سالگرہ کے موقع پر مبارکباد پیش کی آپ کی دعاؤں اور محبت کے نذرانے کا بھی شکریہ مگر سالگرہ منانا اور اس کی مبارکباد دینا یہ بدعت میں شامل اس لیے آئندہ اس بات کا تذکرہ ایک ایمان والے ہونے کے ناطے ہم اس بدعت سے اجتناب برتیں اور دوسروں کو بھی اس بات کی تاکید کریں۔ روز قیامت سوال کیا جائے گا ہم نے تمہیں عمر دی تھی کہاں لگائی جوانی دی تھی کیا کیا اور اپنے علم پر کتنا عمل کیا۔
زیر مقابلہ تصویر میں عمر کے اس دور کو دکھایا گیا ہے جب تنہائی کے سوا کچھ نہیں رہتا صرف یادیں اور اپنے چاہنے والوں کا انتظار چاہے وہ بیٹا بیٹی پوتا پوتی نواسہ نواسی کی ہی شکل میں کیوں نہ ہو مگر انتظار رہتا یا پھر اس بات کا انتظار رہتا ہے کہ جو بچھڑ گئے جاکر ان سے ملاقات کریں۔
اللہ سے دعا ہے کہ اے اللہ عمر جو تو دی ہے اس کا صحیح استعمال کرنے والا بنا اور آخری ہچکی کلمے کے ساتھ آئے اور تیری رضا کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجائے۔
آمین
🌹🌹 **انعام اول** 🌹🌹

اس وقت اپنے آپ سے ہوں محو گفتگو
تصویر کوئی میری میرے ساتھ کھینچ لے
*انصاری شکیب الحسن سر*

ساری عمر چلتی ہے ،پھر بھی پوری نہیں ہوتی ۔۔
یہ محبت ہے جناب ،کبھی بوڑھی نہیں ہوتی
*خان گوہرنایاب*
عین مُمکن ہے کہ اُس وقت تُجھے میں نہ مِلوں
یار  جس  وقت تُجھے  ساتھ  نبھانا آئے

‏میری تصویر بنانے کی جو دُھن ہے تم کو
‏کیا اداسی کے خد و خال بنا پاؤ گے...
‏سر کی دلدل میں دھنسی آنکھ بنا سکتے ہو
‏آنکھ میں پھیلتے پاتال بنا پاؤ گے؟
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*
💐💐 *انعام دوم* 💐💐
‏جسے نہ آنے کی قسمیں میں دے کے آیا ہوں
اسی کے قدموں کی آہٹ کا انتظار بھی ہے

*محترمہ جویریہ جودت صاحبہ*

اتنی کشش تو ہو_______نگاہِ شوق میں...! 

اِدھر دل میں خیال آئے اُدھر وہ بے قرار ہو جائے!!
*انصاری فریسہ جبین باجی*

تیری یادوں کا ہی سرمایا لئے بیٹھے ہیں
ہم کبھی بے سر و سامان نہ ہونے پائے
*سید وقار احمد سر*
🍁🍁 *انعام سوم* 🍁🍁
ہر رات اک نام یاد آتا ہے
کبھی صبح کبھی شام یاد آتا ہے
سوچتے ہیں ہم کر لیں دوسری محبت
پر پہلی محبت کا انجام یاد آتا ہے

کون کرتا ہے کسی کو عمر بھر کے لیے یاد
وقت کے ساتھ خیالات بدل جاتے ہیں
*مرزا حامد بیگ صاحب*

اور وہ ، جو دِل نواز تھا! وہ تو چلا گیا
اِک سوگوار درد سے رشتہ ضرُور ہے
آہٹ پہ کان، در پہ نظر، دل میں اضطراب
تصویر بن گئی ہوں تیرے انتظار میں
*محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

قفس میں رہتے رہتے ہو گئی صیاد سے الفت......
مَیں خود ہی نوچ لیتا ہوں میرے جب پَر نکلتے ہیں

کارِحیات ریشمی دھاگوں  کا  کھیل تھا
الجھےتوپھرسلجھ نہ سکےتارزیست کے
*محترمہ فوزیہ انجم صاحبہ*

🍁 *جج کے پسند کے اشعار* 🍁
پہلے اپنے جلووں کو معتبر کیا ہوتا
پھر میری نگاہوں کا امتحاں لیا ہوتا
*محمد عقیل سر*

شب انتظار کی کشمکش میں نہ پوچھ کیسے سحر ہوئی
کبھی اک چراغ جلا دیا کبھی اک چراغ بجھا دیا
*محترمہ فرحت جبین صاحبہ*

عمر بھر راستہ دیکھیں گی ہماری یہ آنکھیں

ہم یہ دروازے مقفل نہیں  ہونے دیں گے
*محمد اشفاق سر*

شدت کی لُو ہو یا سرد ہوائیں، اِس کو کیا پروا
کانٹوں کے بستر پر بھی محوِ آرام محبت ہے
تُو پگلی! اب کن سوچوں میں گم صم بیٹھی رہتی ہے
بولا ہے ناں اب یہ ساری تیرے نام محبت ہے
*محمد وسیم راجا سر*

وہ تھک گئی تھی بھیڑ میں چلتے ہوئے ظہور
اس  کے بدن پہ ان گنت آنکھوں کا  بوجھ  تھا
*محمد عتیق خلد آباد شریف*

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہو جاتا ہوں
اب میں اکثر میں نہیں رہتا تم ہو جاتا ہوں

ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

*محترمہ آفرین صاحبہ*انتظار

Monday, August 2, 2021

کارواں


محترم احباب بزم محفل مشاعرہ 
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

قافلہ بنتا ہے سجاتا ہے اور پھر لٹ جاتا ہے قافلہ بنانے والا ہر ایک کی منت سماجت کرکے اسے سجاتا اور پھر جب قافلے کی رونق بڑھ جاتی ہے تو لٹیروں کی نظر اس پر پڑتی اور قافلہ لوٹ لیا جاتا ہے۔
پہلے زمانے سے ہی ہمیں گروہ میں رہ کر سفر کرنے کا حکم ہوا اور یہ تاکید کی گئی کہ عورتوں نے بغیر محرم کے سفر نہیں کرنا چاہیے مگر افسوس اب تو حکومت نہ یہ فیصلہ لیا ہے کہ عورتیں بغیر محرم کے اکیلے سفر حج کے لیے جا سکتی ہے۔
پہلے زمانے میں امیر کارواں ایک ہوا کرتا ہے اب امیروں تعداد بڑھ جانے کے سبب ہمیں منزل ہی نہیں مل رہی
ہمیں پھر سے ایک بہترین کارواں بنانے کی ضرورت ہے اور عنقریب وہ وقت آجائے گا جب ہم ایک امیر کارواں کے ساتھ رواں دواں ہوں گے وہ دور ہوگا محمد بن عبداللہ یعنی امام مہدی کا ان کی قیادت میں ہمارا قافلہ چلے گا اور حضرت عیسی علیہ السلام اور امام مہدی مل کر دجال کو ختم کرینگے اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی۔
ابھی تو ہمارا معاملہ ایسا ہے کہ
*زندگی یوں ہوئی بسر تنہا*
*قافلہ ساتھ اور سفر تنہا*
خیر چلتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آج کے مقابلے کا کیا نتیجہ نکلا ہے۔

      *انعام خصوصی* 
نگاہ بلند سخن دلنواز جہاں پر سوز
یہی ہے رخت سفر میر کارواں کے لیے
*جویریہ جودت صاحبہ*

شریعت پر کبھی بھی آنچ آ جائے نہیں ممکن
علم حق کا لئے جو قافلہ  سالار زندہ ہے
*ایم کے وسیم راجا*

 رابطہ لاکھ سہی قافلہ سالار کے ساتھ
ہم کو چلنا ہے مگر وقت کی رفتار کے ساتھ
*بشری جبین صاحبہ*
درجہ بالا شعر فھیم خاتون مسرت صاحبہ نے بھی ارسال کیا ہے

اک عمر سے فریب سفر کھا رہے ہیں ہم
معلوم ہی نہیں کدھر جارہے ہیں ہم
*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب*

درد اپنا مجھ سے کہہ میں بھی سراپا درد ہوں
جس کی منزل تھا میں اس کارواں کی گرد ہوں
*خان گوہر نایاب*

میں کارواں کی راہ سمجھتا رہا جسے
صحرا کی ریت پہ وہ ہوا کی لکیر تھی
*عرشیہ عندالواجد صاحبہ*

تو ادھر ادھر کی نہ بات کر یہ بتا کہ قافلہ کیوں لٹا 
مجھے رہزنوں سے گلا نہیں تری رہبری کا سوال ہے
*فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

اب جس طرف سے چاہے گزر جائے کارواں 
ویرانیاں تو سب مرے دل میں اتر گئیں

*مرزا حامد بیگ صاحب*

              *انعام اول*

اندھیری شب کا سفر تھا ہوا تھی صحرا تھا۔۔
دیے کو میں نے بچایا تھا اور دیے نے مجھے۔۔!
*نقوی شادزہرا صاحبہ*
ان کے قدموں سے لپٹ کر مجھے مر جانے دے 
 بےٹھکانہ ہوں ازل سے مجھے گھر جانے دے 

سوئے بطحا لیے جاتی ہے مجھے ہوائے بطحا 
 بوئے  دنیا مجھے گمراہ نہ  کر  جانے  دے
*عبدالستار سر* 


قافلے خود سنبھل سنبھل کے بڑھے
جب کوئی میر کارواں نہ رہا

باقر مہدی
*بشری جبین صاحبہ*

یقیناً رہبر منزل کہیں پر راستا بھولا
وگرنہ قافلے کے قافلے گم ہو نہیں سکتے
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*

سفر ہو شاہ کا یا قافلہ فقیروں کا
شجر مزاج سمجھتے ہیں راہگیروں کا

*محمد عقیل صاحب*

نہ کوئی سمت نہ منزل سو قابلہ کیسا
رواں ہے بھیڑ فقط بے قیاس لوگوں کی
*انصاری شکیب الحسن سر*



بھٹک رہے ہیں اندھیروں میں کارواں کتنے
جلا سکو تو جلاؤ صداقتوں کے چراغ

*محمد اشرف الدین سر*

مسافر کے راستے بدلتے رہے
مقدر میں چلنا تھا چلتے رہے
کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
میرے پاؤں شعلوں پہ چلتے رہے

*سید وقار احمد سر* 
          *انعام دوم*
ہم سفر چاہیئے ہجوم نہیں
اک مسافر بھی قافلہ ہے مجھے

*محمد عقیل صاحب*

وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا

*محترمہ نزہت صاحبہ*

‏وہ قافلہ کسی اندھے نگر سے آیا تھا.!
ہر ایک شخص کا تکیہ کلام آنکھیں تھی.!
*سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*

اب نہ کوئی منزل ہے اور نہ رہ گزر کوئی 
جانے قافلہ بھٹکے اب کہاں کہاں یارو
*سید وقار احمد سر*
 
چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچھے 
بہار آکے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

*فریسہ جبین باجی*

اہل خرد صدائے جرس کے ہیں منتظر 
دیوانے منزلوں سے بھی آگئے نکل گئے 
*مرزا حامد بیگ صاحب*

        *انعام سوم*
دیکھنے آؤ روانی میری
کوئی دریا ہے جوانی میری

چند قبریں ہیں مرے پہلو میں
ایک صحرا ہے نشانی میری


*عبدالرزاق حسین صاحب*

حیات لے کے چلو،کائنات لے کے چلو ۔

چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو۔۔
*ڈاکٹر محفوظ اللہ قادری صاحب*

پندار  صحرائی میں ہے جکڑا ہوا
ناقہ موچ ہوایہ قافلہ ذرات کا 

تو اپنی نرم شعاعوں کا قافلہ لےجا
کچھ اور چاٹ لے صحرائے گمراہی کا 
 
صحرائے خرد میں حیران ہیں کل قافلہ
جائے راہرواں منہ موڑ لیتا ہے سورج بھی
*مرجان صاحب*

سفرجب تنہاکرناہوتوپھر سوچانہیں کرتے
کسی کاساتھ نہ بھی ہو قدم روکانہیں کرتے
اگرصحرامیں آئےہوتو ساحرخودہی آئےہو
کبھی ویرانے توچل کے شہر آیا نہیں کرتے
خدا حافظ 
خان محمد یاسر

Sunday, July 25, 2021

روبرو


السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ 

جی ڈھونتا ہے پھر وہی فرصت کے رات دن
بیٹھے رہے ہم تصویر جانا کیے ہوئے
 *محترمہ گوہرنایاب صاحبہ*

محترم معزز احباب بزم محفل مشاعرہ امید ہیکہ آپ تمام خیر وعافیت سے ہوں گےاللہ آپ کو خوش خرم شاد و آباد رکھے کتنا اچھا ہوا کہ آج تصویر میں نے نہیں دیا انصاری شکیب الحسن صاحب کے ذریعے سے انصاری فریسہ جبین باجی صاحبہ نے دیا میں دونوں محترمین کا ممنون ہوں اگر میں آج تصویر دیتا تو کوئی اداسی والی دلجلی تصویر ہوتی اور اتنی خوبصورت تصویر سے آپ تمام محروم ہوجاتے اور ایک خاص بات کہ اتنا اچھا مقابلہ بھی نہیں ہوتا فریسہ باجی میں تصاویر کے انتخاب کا فہم بہت اچھا ہے۔
شکیب بھائی نے پوچھا کہ میں آج دن بھر کہاں تو اس کا جواب یہ شعر ہے
اداسی بھی عدم احساسِ غم کی ایک دولت ہے
بِسا اوقات ویرانے بھی حسیں معلوم ہوتے ہیں
مراسلہ
*محترمہ فریسہ جبین باجی صاحبہ*
خیر بات کرتے ہیں آج کی تصویر کی تو یہ تصویر اس خوش قسمت جوڑے کی ہیں جو دنیا کا غم بھلا کر اپنی لو میں ایک دوسرے کے روبرو بیٹھے اپنی باتوں میں گم ایک دوجے کی آنکھوں میں گم ہے ان دونوں کے لیے میں کہوں گا کہ 
*جو فقر میں پورے ہیں وہ ہر حال میں خوش ہیں*
*ہر کام میں ہر دام میں ہر حال میں خوش ہیں*
*گر مال دیا یار نے تو مال میں خوش ہیں*
*بے زر جو کیا تو اسی احوال میں خوش ہیں*
*افلاس میں ادبار میں اقبال میں خوش ہیں*
*پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں*
*چہرے پہ ملالت نہ جگر میں اثر غم*
*تھے پہ کہیں چین نہ ابرو میں کہیں خم*
*شکوہ نہ زباں پر نہ کبھی چشم ہوئی کم*
*غم میں بھی وہی عیش الم میں بھی وہی دم*
*ہر بات ہر اوقات ہر افعال میں خوش ہیں*
*پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں*
*گر اس نے دیا غم تو اسی غم میں رہے خوش*
*اور اس نے جو ماتم دیا ماتم میں رہے خوش*
*کھانے کو ملا کر تو اسی کم میں رہے خوش*
*جس طور کہا اس نے اس عالم میں رہے خوش*
*دکھ درد میں آفات میں جنجال میں خوش ہیں*
*پورے ہیں وہی مرد جو ہر حال میں خوش ہیں*
 ہوتا یہ ہے کہ دو چار دن خوشی کے نکلنے کے بعد آٹا دال کا بھاؤ معلوم ہوتا ہے تو سب اپنا اپنا راستہ ناپنے لگتے ہیں اس ملاقات کو کوستے ہیں جس نے یہ فیصلہ لینے پر مجبور کیا تھا کہ ہم اک دوجے کہ ہوجائے۔
اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو یہ سوچتے کہ اس طرح کی ملاقاتیں روز ہو ہمدم قدم قدم  پر ساتھ ہو مگر ہوتا نہیں جو ملا اس کو مقدر نہیں سمجھتے جو نہ ملا اسے افسانہ بناکر اپنی زندگی میں فساد بپا کردیتے۔
خیر!
تصویر کو دیکھ کر تو میری بھی بے ساختہ آہ نکلی 
اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک 
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے 
 *محترم عبدالستار سر*

جسے کم ہی لوگوں نے سنا اور اظہار بھی کر دیا شاید میری طرح اور بھی ہوں گے جو اس لمحے کے منتظر ہوں گے کسی دوسرے کے ساتھ نہیں کم از کم اپنی شریک حیات کے ساتھ ضرور۔
اکثر کیا ہوتا وہ لمحہ انتظار کرتا ہے مگر ہماری آپسی نا اہلی اس لمحہ کو گواں دیتی ہے۔
آج کا مقابلہ بہترین رہا میں نے اس دفعہ ان ہی اشعار کا انتخاب کیا جو اس تصویر کی مناسبت سے تھے
آج  *سید وقار احمد سر* کے تمام اشعار قیامت ڈھا رہے تھے اس لیے انھیں جج کی پسند میں جگہ دی۔
🍁🍁 *جج کی پسند* 🍁🍁

_____________________________

آ بیٹھ میرے پاس شاعری سناؤں تجھ کو
کچھ غم دل کا تڑپنا بھی دکھاؤں تجھ کو
کیسے یقین آئے گا تجھے میری وفا کا ہمدم
کیا اپنے دل کے زخم بھی دکھاؤں تجھ کو
_____________________________

میری بات سن میرے پاس آ
ذرا بیٹھ تو میرے ہم نشیں
بس میں اور تم اور چاندنی
نہیں اور کوئی ہے  در میاں
_____________________________

کبھی آ بیٹھ میرے پاس تھوڑی گفتگو تو کر
 کے جتنا تُو نے سنا ہے اُتنا برا نہیں ہوں میں 
_____________________________
تکلف چھوڑ کر میرے برابر بیٹھ جائے گا 
تصور میں ابھی وہ پاس آ کر بیٹھ جائے گا 
خیال اچھا ہوا تو شعر بن کر آئے گا باہر 
بہت اچھا ہوا تو دل کے اندر بیٹھ جائے
_____________________________

 لاکھ  دیکھوں تُجھے بھرتی نہیں نیت میری 
دل ہے قابو میں مرا اب نہ طبیعت میری 
آ کے پہلو میں مرے بیٹھ میں ہو جاؤں نثار 
ہے تمنا تو یہی ہے یہی حسرت میری
_____________________________

کبھی تو پاس بارش کے بہانے بیٹھ جاؤ
ملیں گے پھر کہاں ایسے ٹھکانے بیٹھ جاؤ
نہیں تاب نظر مجھ کو  جھلس جاؤں گا  جاناں
کہاں سے آگئے بجلی گرانے بیٹھ جاؤ
_____________________________

وہ پاس کیا ذرا سا مسکرا کے بیٹھ گیا
میں اس مذاق کو دل سے لگا کے بیٹھ گیا
پھر اس کے بعد کئی لوگ اٹھ کے جانے لگے
میں اٹھ کے جانے کا نسخہ بتا کے بیٹھ گیا
_____________________________

 *سیّدوقار احمد*------------------🍁

اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک 
اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے 
 *محترم عبدالستار سر*
اے کاش ہماری قسمت میں ایسی بھی کوئی شام آجائے 
اک چاند فلک پر نکلا ہو اک چاند سرعام آجائے
 *محترمہ عرشیہ صاحبہ*


💥💥  *انعام خصوصی* 💥💥

چاندنی رات تیراساتھ یہ دلکش منظر
میں اگربھولناچاہوں تو بھلا بھی نہ سکوں
 *محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

سانسوں ذرا ٹہرو کہ تسلسل دیدار یار نہ ٹوٹے
ابھی تو جی بھر کر میں نے اسے دیکھا بھی نہیں 

 *محترمہ فرحت جبین باجی*

مریضان محبت کو دیدار یار کافی ہے
ہزاروں طب کے نسخوں سے نگاہ یار بہتر ہے
 *محترمہ ثناء ثروت صاحبہ*

حیرت ذدہ ہـے سنگ تراشوں کی انگلیاں
اک شخص پاس بیٹھا ہے پتھر بنا ہوا
*محترمہ سیدہ سلمی صاحبہ*
میں تو خود پر بھی کفایت سے اسے خرچ کروں۔۔۔۔
وہ ہے مہنگائی میں مشکل سے کمایا ہوا شخص۔۔۔
 *محترمہ فریسہ جبین باجی صاحبہ*

🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹

تیری      آنکھوں    سے     گفتگو     کر     کے  
میری      نظروں        نے        بولنا        سیکھا   
 *انصاری شکیب الحسن سر*

تم آگئے ہو توکچھ چاندنی سی باتیں ہوں
زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے
 *محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

کاش کے تیرے سامنے آتے ہی یہ وقت ٹھہر جائے
تجھے یونہی دیکھتے دیکھتے یہ زندگی گزر جائے

*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی*
اگر تم ہو تو گھبرانے کی کوئی بـــــات تھوڑی ہے
ذرا سی بوندا باندی ہے بہت برســــات تھوڑی ہے
یہ راہِ عشق ہے اِس میں قدم ایسے ہی اٹھتے ہیں
محبت سوچنے والوں کے بس کی بات تھوڑی ہے

*محترمہ عرشیہ صاحبہ*


🍂❣️🍂❣️ *انعام دوم* ❣️🍂❣️🍂
گفتگو ہم روبرو ان کے نہ کر پائے بہت۔۔
یوں تو آتے تھے سخن کے ہم کو پیرائے بہت۔۔
 *محترمہ نقوی شادزہرا صاحبہ*

رفتہ رفتہ دیدہ تر کو ڈبویا اشک نے 
پانی رستے رستے کشتی میری طوفانی ہوئی
*محترم محمد عقیل سر*

ہے آج رخ ہوا کا موافق تو چل نکل
کل کی کسے خبر ہے کدھر کی ہوا چلے

 *عبدالرازق حسین صاحب*

وہ پھول سے لمحے بھاری ہیں اب یاد کے نازک شانوں پر 
جو پیار سے تم نے سونپے تھے آغاز میں اک دیوانے کو 
*محترمہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ*
اس کی باتیں کہ گل و لالہ پہ شبنم برسے
سب کو اپنانے کا اس شوخ کو جادو آئے
اس نے چھو کر مجھے پتھر سے پھر انسان کیا
مدتوں بعد مری آنکھوں میں آنسوآئے
*محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

☘️🌹☘️ *انعام سوم* ☘️🌹☘️

کشتیاں سب کی کنارے لگ جاتی ہیں۔

ناخدا جس کا نہیں،اس کا خدا ہو تا ہے۔۔

*محترم ڈاکٹر محفوظ اللہ قادری صاحب*

اداس نہ رہا کر تیری مسکان اچھی لگتی ہے 
دیدار تو پھر دیدار ہے تیری یاد بھی اچھی لگتی ہے.
*محترمہ خان گوہر نایاب صاحبہ*

اب نزع کا عالم ہے مجھ پر...!
تم اپنی محبت واپس لو..


جب کشتی ڈوبنے لگتی ہے تو..!
بوجھ اتارا کرتے ہیں..!!
*محترمہ جویریہ جودت صاحبہ*



بھڑکائیں میری پیاس کو اکثر تیری آنکھیں

صحرا میرا چہرہ ہے سمندر تیری آنکھیں

بوجھل نظر آتی ہیں بظاہر مجھے لیکن

کھلتی ہیں بہت دل میں اُتَر کر تیری آنکھیں

اب تک میری یادوں سے مٹائے نہیں مٹتا

بھیگی ہوئی شام کا منظر ، تیری آنکھیں

ممکن ہو تو اک تازہ غزل اور بھی کہہ لوں

پھر اوڑھ نا لیں خواب کی چادر تیری آنکھیں

یوں دیکھتے رہنا اسے اچھا نہیں محسن

وہ کانچ کا پیکر ہے تو پتھر تیری آنکھیں

*محترم ایم کے وسیم راجا صاحب*
واقعی تمام ترسیلات عمدہ تھیں مگر میرے اتنی ہمت نہیں کہ انھیں شمار کر سکوں ہاں۔
ایک تصویر جینے کا مزہ دیتی ہے اس تصویر زمانے کے غم بھلانے کا سبب ہوتی ہے ایک شاعر نے کہا تھا کہ 
یاد ماضی عذاب ہے یارب 
آپ کو اچھی یادوں کے ساتھ رہ کر اچھے سے زندگی گزاریں یہی اللہ تعالٰی سے دعا ہے آپ کا ہمدم آپ کے ساتھ آپ کے روبرو خوشی خوشی آپ کا ساتھ دے اسی دعا کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں
 خدا حافظ 
آپ کا بھائی آپ کا دوست 
خادم محفل
 *خان محمد یاسر*

Wednesday, June 16, 2021

تیرے ہوتے ہوئے آجاتی تھی ساری دنیا

💍 *انعام خصوصی*💍

موسم کی ادا آج بھی پر کیف ہے لیکن
جو تیرے ساتھ گزارا اس وقت کی حسرت نہیں جاتی
*شیخ عارف صاحب*

🌿🌿🌿 *انعام اول*🌿🌿🌿

سر بلندی مری تنہائی تک آ پہنچی ہے
میں وہاں ہوں جہاں کوئی نہیں میرے سوا
*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب*
تیرے  ہوتے ہوئے آجاتی تھی ساری دنیا

آج تنہا ہوں تو کوئی  آنے والا نہیں
*محترمہ گوہر نایاب صاحبہ*

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے
ایسی تنہائی کہ مر جانے کو جی چاہتا ہے

*فریسہ جبین باجی*

🍃🍃🍃 *انعام دوم* 🍃🍃🍃
لب دریا سہانی شام باہم پیار کی باتیں
نگاہ شوق میں اب تک وہ منظر رقص کرتا ہے
*عبداللہ خان ممبئی*

ہاں آسمان اپنی بلندی سے ہوشیار
اب سر اٹھا رہے ہیں کسی آستاں سے ہم
میں اپنے گھر کو بلندی پہ چڑھ کے کیا دیکھوں
عروج فن مری دہلیز پر اتار مجھے

*نقوی شادزہرا صاحبہ*

شام، پیڑ ، تنہائی ، اُداسی ، خاموش راستے
میں اکیلا کہاں ! سب میرے ساتھی تو ہیں
*بشریٰ جبین صاحبہ*

ہواچلےگی توخوشبو مری بھی پھیلےگی
میں چھوڑآئی ہوں پیڑوں پہ اپنی بات کےرنگ

کون جھانکےگامیری روح کی گہرائ میں
کون دیکھےگامیرےجسم میں ٹوٹا کیا ہے
*فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

🌹❤️🍀 *انعام سوم* 🍀❤️🌹
حوصلے تھے کبھی بلندی پر
اب فقط بے بسی بلندی پر

        

سناٹا میرے چاروں طرف ہے بچھا ہوا

بس دل کی دھڑکنوں کو پکڑ کر کھڑا ہوں میں

*عبدالستار سر*

چپ    چاپ    نہ    لے    جائے    سمندر   کو  اٹھا کر
وہ     شخص    جو   ساحل   پہ   کھڑا    سوچ    رہا    ہے 
*انصاری شکیب الحسن سر*

بچھڑتے وقت جو تم سونپ کر گئے تھے مجھے
وہ انتظار مرے چار سُو ابھی تک ہے

*عبدالرازق حسین*

میں تھا اور  تھی ساتھ تیری یاد مسلسل
کہہ دوں کہ تو ہی ساتھ تھا تو یہ عجب نہیں
*فرحت جبین باجی*

🍁🍁🍁 *میری پسندہ شعر*🍁🍁🍁
دشمنوں تم کو خوف کس کا ہے
مار   ڈالو   کہ   میں   اکیلا ہوں

*مرزا حامد بیگ*

کاش کہ میں پلٹ جاؤں، اُسی بچپن کی وادی میں

🦚💐 *انعام خصوصی*💐🦚
خوب نبھے گی ہم دونوں میں میرے جیسا تو بھی ہے 
میں بھی ہوں ٹوٹا ٹوٹا سا بکھرا بکھرا تو بھی ہے

جانے کس نے ڈر بویا ہے ہم دونوں کی راہوں میں
میں بھی ہوں کچھ خوف زدہ سا سہما

. سہما تو بھی ہے

*عبدالستار سر*

🌹💐  *انعام اول* 💐🌹
کچھ نہیں چاہیےتجھ سےاےمیری عمرِرواں
میرابچپن میرےجگنومری گڑیالادے
  
بچپن سے پچپن تک کا سفر، گزر گیا دیکھو کیسے پل بھر میں
عمر رفتہ کو اب کیا آواز دوں، لگتا ھے کہیں دینا نہ پڑ جائے دم،!!!!!!

*فھیم خاتون مسرت صاحبہ*

‏کاش کہ میں پلٹ جاؤں، اُسی بچپن کی وادی میں
جہاں نہ کوئی ضرورت تھی، نہ کوئی ضروری تھا
*وسیم راجا صاحب*

عمر رواں عمر رفتہ پھر یاد رفتگاں نازک ۔۔
عمر کٹ گٸی مگر ہجر کا کٹنا محال ہے ۔۔۔
*نقوی شادزہرا*

🍃🌸 *انعام دوم* 🌸🍃
مجھ کو میرے سارے کھلونے لا کے دو میں کیا جانوں
کیسی جوانی کس کی جوانی میں ہوں اپنے بچپن کا

*حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی*

کہتے ہیں عمر رفتہ کبھی لوٹتی نہیں
جامے کدے سے میری جوانی اٹھا کے لا

سفر پیچھے کی جانب ہے قدم آگے ہے میرا
میں بوڑھا ہوتا جاتاہوں جواں ہونے کی خاطر

*خان گوہر نایاب*

میں وہ بستی ہوں کہ یاد رفتگاں کے بھیس میں
دیکھنے آتی ہے اب میری ہی ویرانی مجھے

*محمد اشرف الدین سر*
🍁🍀 *انعام سوم*🍀🍁
نہ بچپن کی امنگیں ہیں نہ ہیں وہ شوخیاں باقی
تعاقب میں تھے جن کے ہم نہیں وہ تتلیاں باقی
*سیدہ ھما*

بچپن میں ہم ہی تھے یا تھا اور کوئی
وحشت سی ہونے لگتی ہے یادوں سے

*نقوی شادزہرا*

نوکا ہی بچوں کا جھولا
نوکا ہی پیری کا عصا تھا
*محمد عقیل سر*
💕💕 *پسندیدہ کلام*💕💕

*ہم سے تکلیف کس کی نہیں دیکھی جاتی۔۔*

*غیر کا دل بھی جو ٹوٹا تو ہمارا ٹوٹا۔۔*
*ڈاکٹر محفوظ اللہ قادری صاحب*

Friday, April 2, 2021

خالد ‏سیف ‏الدین ‏: ‏ایک ‏فرد،ایک ‏قافلہ

*خالد سیف الدین :  ایک فرد، ایک قافلہ* 

پانی، ہوا، سورج کی روشنی یہ سب انمول چیزیں اللہ نے ہمیں عطا کی ہے جو کبھی نہ ختم ہونے والی ہیں۔کچھ شخصیتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے لیے نعمت ہوتی ہیں۔خالد سیف الدین صاحب کی شکل میں ایسی ہی نعمت اللہ نے مجھے بھی عطا کی۔ آج جب مجھے خالد سیف الدین صاحب کی مہلک وباء کوروناسے متاثر ہونے کی اور شریک اسپتال کی خبر نے مجھے ہلا کر رکھ دیا۔ اورمیری آنکھوں سے آنسو نمودار ہوگئے۔ اسی کے ساتھ میرے ذہن میں یادوں کی فلم چلنی شروع ہوگئی کہ میری پہلی ملاقات جناب خالد سیف الدین صاحب سے میرے استاد محترم ڈاکٹر سلیم محی الدین صاحب کے توسط سے ہوئی۔ یہ بات سن 2011ء کی ہے جب ڈاکٹر سلیم محی الدین صاحب نے مجھے ایک روز کال کی اور پوچھا کہ کیا آپ ۰۲/ دنوں کے لیے پربھنی آسکتے ہو۔میں نے حامی بھر لی۔ سلیم سر نے کہا ”پوچھو گے نہیں کہ آپ کو پربھنی کیوں آنا ہے؟“ میں نے کہا ”ضروری کام ہوگا اس لیے آپ مجھے بلا رہے ہیں۔“ انہوں نے کہا کہ”میرے رفیق اور میرے دوست خالد سیف الدین جو کہ پیشہ سے ایکزیکیٹیو انجینئر ہے اور بہت قابل شخصیت ہے۔ وہ شہر پربھنی میں ایک عظیم الشان اردو کا ا ٓنگن منعقد کررہے ہیں۔ جس میں مجھے اور آپ کو اپنی اپنی ذمہ داریاں نبھانی ہے۔“یہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ میں ایک بڑے پروگرام کا حصہ بننے جارہا ہوں۔ میں اپنے بتائے ہوئے وقت پر پربھنی پہنچ گیا۔ اسٹیشن پر سلیم سر مجھے لینے آئے۔ہم دونوں اسٹیشن سے سیدھا فوزیہ میڈم کے کوئینس انگلش اسکول پہنچے جہاں اردو کا آنگن کے لیے آفس اور رہائش کا اہتمام کیا گیا تھا۔
میری نظریں خالد سیف الدین صاحب کو تلاش کررہی تھی۔ ڈاکٹر سلیم محی الدین نے خالد سیف الدین صاحب کے تعلق سے جو تھوڑا سا تعارف پیش کیا تھا اس کے پیش نظر میرے ذہن میں خالد سیف الدین صاحب کے متعلق یہ شبیہ بنی تھی کہ وہ ایک خشک مزاج و خاموش مزاج،ایک آفیسر قسم کی شخصیت ہوگی۔ لیکن مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب خالد سیف الدین صاحب کی آواز آئی میں نے پلٹ کر دیکھا تو ایک سمارٹ،خوبصورت،وجیہہ شخصیت ٹراوزر اور ٹی شرٹ میں ملبوس، پیروں میں سلیپر چپل پہنے وارد ہوئی۔سلیم سر نے میرا تعارف کروایا۔ خالد سیف الدین صاحب بڑی گرمجوشی سے مجھے گلے لگایا اور میرا استقبال کیا۔ اردو میلے کی سرگرمیاں شروع ہوچکی تھی۔ باہر لوہے کے فریم پر بینر چسپاں کئے جارہے تھے۔ باہر سے بینر والے لڑکوں نے انہیں بینر دکھانے باہر لے گئے۔ باہر جاکروہ ان لڑکوں کے ساتھ زمین پر بیٹھ گئے اور بینر کس طرح چسپاں کرنے ہیں وہ بتانے لگے۔ خالد سیف الدین صاحب کا انداز دیکھ کر مجھے بڑی حیرت ہوئی اتنی بڑی شخصیت اور اتنی سادگی۔ یہ میرا پہلا تجربہ تھا خالد سیف الدین کے ساتھ۔ اس کے علاوہ وہ ملٹی ٹیلنٹ شخصیت ہے۔ کسی بھی نوعیت کا کام ہووہ بڑی آسانی سے کروالیتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ وہ اس فن کے ماہر ہیں۔ آپ کا حافظہ اللہ کا دیا ہوا ایک انمول تحفہ ہے۔
خالد سیف الدین صاحب اور ان کی تمام ٹیم کے ساتھ میرے وہ ۰۲/دن بڑی مصروفیت کے گزرے۔ یہاں سے خالد سیف الدین صاحب میرے لئے خالد بھائی بن گئے۔ خالد بھائی خود سے زیادہ اپنے ساتھیوں کے کھانے پینے نیزان کے آرام کا خیال رکھتے۔ کئی مرتبہ تو ایسا ہوا کہ خالد بھائی میرے جیب میں پیسے ڈال دیتے اور کہتے یکساں کام کرتے ہوئے تھک گئے ہو گے جاو باہر گھوم کر آؤ۔اس کے علاوہ جتنے بھی افراد اس وقت موجود تھے ہر وقت ان کی ہمت افزائی کرتے، ان کی تعریف کرتے جس سے ہر کوئی کام کی زیادتی سے پریشان نہیں ہوتا بلکہ وہ خالد بھائی کی باتوں اور ان کے اخلاق سے تازہ دم ہوجاتا۔ اور اپنا کام بڑی تندہی سے انجام دیتا۔ کسی بھی پروگرام کا انتظام کیسا ہونا چاہئے یہ میں نے خالد بھائی سے سیکھا۔ اسی کے ساتھ ان دنوں ہر وقت خالد سیف الدین صاحب کی نئی نئی شخصیت کے پہلو مجھ پر اجاگر ہونے لگے۔ پنج وقتہ نماز اور قرآن کی تلاوت ان کی زندگی کا معمول ہے۔ اور یوں مجھے زندگی میں سب سے بہترین و اعلی شخصیت سے ملنے کا موقع ملا۔ پربھنی کے اس اردو کاآنگن پروگرام سے میں خالد بھائی سے جڑچکا تھا۔ 
اس کے بعد پھر وقتاً فوقتاً اورنگ آباد میں خالد بھائی سے ملاقات ہوتی رہی۔ اپنی ملازمت کے دوران خالد بھائی سینکڑوں لوگوں کی مدد کرتے رہتے۔ ان ہی دنوں میرا چھوٹے بھائی جو کہ ایک بہترین کمپیوٹر آپریٹر ہے سے ان کی ملاقات ہوئی جب انہیں معلوم ہوا کہ وہ ملازمت کی تلاش میں ہے تو خالد بھائی نے انہیں اورنگ آباد میونسپل کارپوریشن میں وقتی طورپر لگا دیا۔ ویسے جو بھی ضرورت مند خالد بھائی سے ملتا خالد بھائی اس کی ہر طرح سے مدد کیا کرتے۔جب بھی مجھے کسی بھی قسم کا مسئلہ درپیش ہوتا تو میں خالد بھائی سے اس کے تعلق سے مشورہ کرتا اور خالد بھائی اس مسئلہ کا حل بتا دیتے اور میری رہنمائی کرتے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ میں پربھنی سے اورنگ آباد جنرل ٹکٹ لے کر سفر کررہا ہوتا اور خالد بھائی سے ملاقات ہوتی وہ مجھے اپنے ساتھ فرسٹ کلاس اے۔سی میں ساتھ لے لیتے۔
عرصہ سے شہر اورنگ آباد میں علمی، تہذیبی، ثقافتی میدان میں جمود طاری تھا۔ ۷۲/ دسمبر۴۱۰۲ء تا ۴/ جنوری ۵۱۰۲ء سے اورنگ آباد میں اردو تہذیبی و ثقافتی کتاب میلہ خالد سیف الدین صاحب اور مرحوم خواجہ معین الدین صاحب نے منعقدکرواکر اس جمود کو توڑا۔ جس میں نا صرف مرہٹواڑہ بلکہ تمام مہاراشٹر سے اردو مدارس نے شرکت کی۔ اور اس میلے نے طلباء اور اردو ادب کے قارئین کے لئے ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کروایا جس کے بعد ان میں ایک نئی جان پڑ گئی جو خالد بھائی کا مقصد تھا اوروہ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ شہر اورنگ آباد میں اس طرح کی علمی، تہذیبی و ثقافتی سرگرمیاں شروع کرنے والی پہلی اور شاید آخری شخصیت خالد سیف الدین صاحب ہی ہے۔ جنہوں نے اس طرح کی تقریبات کا آغاز کرکے اورنگ آباد ہی نہیں بلکہ مہاراشٹر کے تمام اردو اسکولوں کو ایک جگہ لانے میں کامیابی حاصل کی۔ویسے تو آپ کے اس طرح کے ملی و فلاحی کاموں کو سراہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہے لیکن ساتھ ہی بہت سے مقامی لوگوں کی تنقید کا وہ شکار بھی رہے ہیں۔جس کی انہوں نے کبھی پرواہ نہ کی۔ خالد بھائی واقعی فولاد جیسا جگر رکھنے والی شخصیت ہے جو ہر مسئلہ سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ 
خالد بھائی کے ساتھ کام کے سلسلے میں جب بھی میں ان کے گھر پر دن دن بھر رہتا تو ہر دو گھنٹہ بعد کچھ نہ کچھ چائے معہ لوازمات پیش ہوتے اور دوپہر کا کھانا و رات کا کھانا تیار رہتا۔ یہ سب کرم فرمائی بھابھی جان کی ہوتی جو گھر آئے مہمانان کے لیے ہر وقت خوشی خوشی کچھ نہ کچھ کھانے کے لیے تیار کرتی رہتیں۔میں جب بھی خالد بھائی کے ساتھ ہوتا تو میری اہلیہ کبھی فون کرکے یہ نہیں پوچھتی کہ’آپ نے کھانا کھایا ہے یا نہیں؟‘  انہیں پتہ ہے کہ میں خالد بھائی کے ساتھ ہوں۔
خالد سیف الدین صاحب ایک کنگ میکر، فرشتہ صفت انسان ہے۔میری نظر میں وہ اپنے آپ میں ایک یونیورسٹی و مکمل انسائیکلوپیڈیا ہے ساتھ ہی جَوہرَِ قابل شخصیت بھی۔ یہ ایسے استاد ہے جن کے گُرو کُل میں اگر کسی کومحض ۲/سال کے لیے بھیج دیا جائے تو وہ ایک بہترین و با صلاحیت انسان بن کر لوٹے گا۔اس گُروکُل کا میں بھی ایک چھوٹا سا طالب علم ہوں۔ ان ہی سے میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔خالد سیف الدین صاحب کے تعلق سے میں صرف اتنا ہی کہوں گا    ؎
ان کا سایہ تجلّی، ان کا نقش پا چراغ
یہ جدھر گزرے ادھر ہی روشنی ہوتی گئی 
خالد بھائی کورونا جیسی وبا کا شکار ہوکر معالجہ کے لیے شریک دواخانہ ہوئے۔ ساتھ ہی ان کی شریک حیات بھی ان کے پیچھے شریک دواخانہ ہوئیں۔ بھابھی جان بھی وہ محترم شخصیت ہے جو خالد بھائی کے شانہ بہ شانہ ہر محاذ پر موجودرہتی ہیں۔ خالد بھائی نہ صرف میرے بھائی بڑے بلکہ میرے رہبر و رہنما بھی ہے۔ آج ان کی تکلیف اور پریشانی دیکھ کر میں ہی کیا ان کا ہر جاننے والا ان کے لئے اللہ رب العزت سے گڑ گڑا کر دعائیں کررہا ہے۔ اور ہم اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہے۔ اللہ غفور الرحیم ہے جو خالد سیف الدین صاحب اور ان کی اہلیہ کو جلد صحت یاب کرکے ہمارے درمیان بھیج دے گا۔ آمین ثم آمین۔
مجھے یقین ہے کہ اللہ انہیں بہت جلد بہترین صحت اور لمبی عمر سے سرفراز کرے گا۔اللہ رب العزت نے خالد بھائی کو قوم و ملت کے فلاحی و اصلاحی کاموں کے لیے منتخب کیا ہے اور انہیں ابھی بہت کام کرنے ہیں۔ 

دعا گو :  سید اطہر احمد 
پرنسپل نعمت اردو اسکول وجونیئر کالج، خلد آباد،
ضلع اورنگ آباد (مہاراشٹر)۔ Call@9373193908
Email: sd.athar.ahmed@gmail.com 

……………………

Sunday, March 28, 2021

دستک


*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*

💕محترم احباب بزم محفل مشاعرہ💕 

آج کے نتیجے کے اعلان کے بعد میں گاؤں والوں کے اخلاق اور ان کی خاطر مدارت اور آؤ بھگت سے بات شروع کرنا چاہوں گا اور کوشش کروں گا کہ تمہید کی ابتدا بھی اسی سے ہو۔ ط
آپ نے مشاہدہ کیا ہوگا کہ گاؤں والوں کے دل میں بہت خلوص ہوتا ہے وہ ہر ایک سے خلوص کے ملتے ہیں اور ہر مہمان کو کھانے کے لیے پوچھا کرتے ہیں ان کے گھروں کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں ان کے گھروں میں داخل ہونے کے لیے کسی دروازے پر دستک دینے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی وہ لوگ آنے والے کی آہٹ سے ہی جان لیتے ہیں کہ کون آیا ہے۔ چپلوں کی چاپ پر آواز دے کر اندر بلا لیتے ہیں یہ ہوتی ہے محبت چاہت اپنائیت اور یہ مخلصانہ محبت گاؤں کی مٹی میں ہی ہوتی ہے۔ اس کے برعکس شہر والے اپنی دنیا میں مگن اپنی اہل خانہ کی خوش الہامی میں لگا رہتا ہے اسے رشتے ناطوں سے کوئی سروکار نہیں وہ کبھی کبھی اپنوں کی آوازوں کو سن کر بھی نظر انداز کردیتا ہے دستک اور دستکوں کی بات تو بہت دور ویسے دستاویزات کی دستکوں کو ہر کوئی خوب سمجھ لیتا ہے۔
بہر حال بات کو طول دے کر لاحاصل میں اپنے مدعے پر آتا ہو 
تصویر شعر عنوان کے تحت دستک پر اشعار موصول ہوئے تمام ہی معیاری اشعار ہیں آپ احباب کے ذوق و شوق کو اللہ قائم رکھے میں دستک کی تفصیل لکھنا چاہوں کہ کس کس قسم کی دستک ہوتی اور اس پر کس قسم کا ردعمل دیا جاتا ہے۔ پہلی دستک اپنے کسی محبوب کی ہوتی ہے جب اس کے آنے کی آہٹ ہوتی ہے تو دستک دینے سے قبل کی دروازہ کھل جاتا ہے اسے احساس دلانے کے لیے کہ آپ کتنے محبوب ہو کچھ لوگ تو ہوا کے جھونکے پر سمجھ جاتے ہیں کہ کون آیا اس میں سب سے پہلے ماں پھر محبوب کہتے ہیں دل کا دروازہ اندر سے بند ہوتا ہے. باہر دوسرا کوئ ہینڈل یا لاک نہیں ہوتا. جب تک دل والا خود نہ چاہے دل کا دروازہ کھل ہی نہیں سکتا. دل کے دروازے پہ دستک کی آواز صرف احساس کے کانوں سے سنی جاتی ہے.
دل پہ دستک مختلف قسم کی ہوتی ہے کبھی یہ دستک محبت کو جگاتی ہوئ ہوتی ہے تو کبھی یہ محبت مانگتی ہوئ ہوتی ہے، کبھی دوستی کی دستک ہوتی ہے تو کبھی صرف اپنے ہونے کا احساس دلاتی ہوئی ہوتی ہے. ہر دستک محبت سے شروع ہوتی ہوئی محبت پہ ختم نہیں ہوتی بلکہ کچھ دستکیں احساسات، انسانیت، محبت، دوستی یا رشتوں کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہوتی ہے.کبھی کبھی دل پہ دستک اتنی مدھم ہوتی ہے کہ دل والے کو گمان بھی نہیں گزرتا کہ کوئ اسکے دل کے دروازے پہ آس لیئے کھڑا ہے.
اور کبھی کبھی تو دستک سن کر بھی دل والا انجان رہتا ہے کیونکہ اسکا دل کسی اور کی آرام گاہ ہوتا ہے.
کبھی کبھی دل پہ دستک کی آواز دل والا سن تو لیتا ہے مگر اُسے یہ ہلکی مسحورکُن دستک اتنی دلکش لگتی ہے کہ وہ ناچاہتے ہوئے بھی اپنے دل کا دروازہ بند رکھتے ہوئے اُسے سنتا رہتا ہے مگر اُسے معلوم نہیں ہوتا کہ بعض مسافر ایک دو دستک کے بعد واپس پلٹ جاتے ہیں کبھی نہ واپس آنے کیلیئے.
کبھی کوئی بھولا بھٹکا شخص کسی غلط دل کے دروازے پر پہنچ کر لگاتار دستک دیتا رہتا ہے. اُسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ دروازہ تاعمر نہیں کھلے گا مگر وہ اس بات سے انجان ساری زندگی اسی دل کے دروازے پہ گزار دیتا ہے. اور دل والا تو پہلے ہی اپنے احساسات کسی اور کے نام کرکے پُرسکون ہوکر گہری نیند میں کھوجاتا ہے کہ نا پھر اُسے اپنے دل پہ دستک محسوس ہوتی ہے نہ ہی اسکے احساسات جاگتے ہیں۔

   اب ہم یہ دیکھنے کو شش کرینگے کہ کس کی دستک میں کونسی تاثیر پوشیدہ ہے ویسے تو تمام ہی دستکیں بہت پیاری تھیں میں ان پیاری پیاری دستکوں میں ایسا محو ہوگیا تھا کہ محسوس ہی نہیں ہو کہ وقت کب ختم ہوگیا۔
ویسے بتاتا چلوں یہ اتوار والی ذمہ داری شکیب بھائی کی تھیں اور اس سلسلے کو ایک سال مکمل ہو چکا ہے اس لیے آج کا عنوان دستک رکھا گیا ہے کہ کچھ مہمان سال میں ایک بار ہی  منہ دکھائی کی رسم ادا کرتے ہیں وہ یا تو سالگرہ پر یا عید کے موقع پر آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں میں آپ تمام احباب کا ممنون و مشکور ہوں کہ آپ روز اس محفل میں دستک دیتے ہوں اور اپنائیت کا احساس جگاکر یہ جتلاتے ہوکہ ہم غیر نہیں آپ کے اپنے ہی اور میں یہ سمجھتا ہو کہ جب دست دعا اٹھائے جاتے ہوں گے تو محفل کے اپنے بھی یاد آتے ہوں گے اور آپ تمام ضرور ہم سب کے لیے دعائیں مانگتے ہوں گے اور مجھے تو یقین ہے آپ دعائیں کرتے ہیں اسی لیے تو کورونا نے ایک سال پورا کرنے کے باوجود ہم ساتھ ساتھ ہے پت جھڑ کی مانند ہم بکھرے نہیں اللہ کرے ہم اسی طرح ساتھ رہے ہر دکھ میں ہر سکھ میں نے سنا تھا دکھ بانٹنے سے کم اور سکھ بانٹنے سے زیادہ ہوتا اور میں نے آپ تمام کے ساتھ یہ اس سال گزار کر محسوس کیا مجھے بہت سارے بڑے چھوٹے بہن بھائی ملے جن سے میں نے مسکرانا سیکھا درد چھپانا سیکھا لوگوں کو اپنا بنانا سیکھا لکھنا سیکھا پڑھنا سیکھا رونا اور ہنسنا سیکھ میں آپ تمام کا مشکور ہوں اسی لیے آج وہ دستک والی تصویر بھیجی تھی تاکہ یادیں تازہ ہو بہت طویل گفتگو ہو گئی معذرت چاہتا ہو 😘
ہاں بتاتا چلوں یہ کارواں سرتاج شاکر سر کی رہنمائی میں چلا تھا جس میں مشعل شکیب بھائی نے تھامی تھی اور مجھے اس میں چلنا سکھایا اور مجروح سلطان پوری کے شعر کے مطابق 
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
آپ تمام احباب جڑتے گئے اور کارواں بنتا گیا مگر اس کارواں کو نایاب گوہر عنایت کئے گئے وہ عبدالملک نظامی سر کی کاوشوں کا نتیجہ تھا عبدالملک سر نے ناندیڑ کے کوہ نور جیسے ہیروں سے متعارف کروایا ہم ہماری محفل مراٹھواڑہ ہی نہیں پورے مہاراشٹر میں مشہور ہوگئی ہے۔ میں تمام ججز اور منتظمین کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ وہ دن رات اس بزم کی رونق کو بڑھانے اور اس کی آب وتاب کو قائم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳🌳
اب نتیجے کی طرف پیش قدمی کرتے ہے اور اعزازی شعر کی تلاش کرتے ہیں اعزازی اشعار 4 ہوں گے
🌹🌹🌹اعزازی اشعار🌹🌹🌹
1️⃣ صدیوں کاانتشارفصیلوں میں قیدتھا 
دستک یہ کس نےدی کہ عمارت بکھر گئی
*محترمہ فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*
2️⃣  دروازہ بھی جیسے میری دھڑکن سے جڑا ہے
دستک ہی بتاتی ہے پرایا ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔تم ہو
*محترمہ فریسہ جبین باجی*
3️⃣ چوڑیوں کی کھنک سے پہچانا
کس نے دروازے پردی ہے دستک
*علــــیــم اســرار*
4️⃣چند لمحے کھٹکٹاکر ہم ہی یارو لوٹ أۓ
در حقیقت بند اندر سے وہ دروازہ نہ تھا

*ڈاکٹر منشاء الر رحمان خان منشاء*
یہ شعر ندیم الرحمن منشاء صاحب کے والد محترم کا ہے جنھیں ہم درسی کتابوں میں پڑھا کرتے ہیں


❤️❤️❤️ *انعام اول* ❤️❤️❤️

1️⃣آج وعدہ ہے اس کے آنے کا
آج اٹکی ہے جان دستک پر
*انصاری شکیب الحسن سر*

2️⃣دستک میں کوئی درد کی خوشبو ضرور تھی 
دروازہ کھولنے کے لیے گھر کا گھر اٹھا
*خان گوہر نایاب صاحبہ*
3️⃣ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا
*وسیم موسی صاحب*




🍁🍁🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁🍁🍁
1️⃣مدتوں بعد لگائی ہے جو  دستک تم نے 
یاد آنے لگے کتنے ہی زمانے مجھ کو
*علیم اسرار*
2️⃣صبا نے پھر درِ زنداں پہ آکے دی دستک
سحر قریب ہے، دل سے کہو نہ گھبرائے
*محمد اشرف الدین سر*
3️⃣جو آنکھ کھول دوں سن کر ضمیر کی دستک
تو خود کو اپنی نظر میں میں سرخ رو کرلوں
*شیخ نعیم حسن صاحب* 

🍂🍂🍂 *انعام سوم* 🍂🍂🍂

1️⃣کس نے نیندوں کو میری ٹوکا تھا؟

کوئی جھونکا تھا؟ کوئی دھوکا تھا؟

                   *عبدالستار سر*
 
2️⃣بند رکھوگے دریچے دل کے یارو کب تلک
کوئی دستک دے رہا ہے اٹھ کے دیکھو تو سہی
*محترمہ نقوی شاد زہرا صاحبہ* 
3️⃣اس  کا  دستک  کے  لئے   ہاتھ  اٹھا
دل   دھڑکنے    لگا    دروازے    کا
*انصاری شکیب الحسن*


دعاؤں کا طالب 
*خان محمد یاسر*

Monday, March 1, 2021

مکان

محترم احباب بزم محفل مشاعرہ 
*السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ*
آج کے نتیجے کا آغاز ہمارے سرپرست  محترم عالیجناب سرتاج شاکر سر کے اس فلمی گیت کے مصرعہ  سے کرتا ہوں  
*پریم کی گلی میں ایک چھوٹا سا گھر بنائینگے*
*کلیاں نہ ملیں نہ سہی کانٹوں سے سجائینگے*
زیادہ تشریح کرنے کی میں ضروت محسوس نہیں کرتا صرف اتنا کہنا چاہوں گا ہر کوئی اپنے گھر کو پریم گلی میں بنوانا چاہتا ہے اور اس کو سجانا چاہتا ہے مگر آج کل کے ماحول اور حالات پر جب مفکرین قوم نظر ڈالتے ہیں تو نوجوانوں کے آشیانے اجڑے ہوئے نظر آتے ہیں 

*نہ وہ طائروں کا جمگھٹ نہ وہ شاخ آشیانہ*

*تم اسے خزاں کہو گے کہ بہار کا زمانہ*
ابھی کل کی بات کر لیتے ہیں احمد آباد کی عائیشہ کی ماں باپ آشیانہ بسانے کے لیے اپنا آشیانہ ویران کردیتے  ہیں پھر بھی نئی نسل سمجھتی نہیں پہلے باپ بیٹی کو وداع کرتے ہوئے نصیحت کرتا تھا بیٹا چاہے کچھ بھی ہو آج ڈولی میرے گھر سے اٹھی مگر جنازہ تیرے اپنے گھر سے اٹھنا چاہیے 😔 ہائے! وہ بیٹیاں بھی اپنے باپ کی بات کا پاس رکھتی تھیں اپنے ہر دکھ چھپا کر ماں باپ کے سامنے خوشیاں پیش کرتیں تھیں جو اپنے جھونپڑے کو محل سمجھ کر رہتیں تھیں اور اب محل کو جھونپڑی سمجھا جارہا ہے کل وہ خوش رہنے کے لیے دکھوں میں سکھ تلاش کرتیں آج ان کی بیٹیاں سکھوں میں دکھوں کا مداوا کرتیں ہیں جو بیٹیاں کل جھونپڑی میں رہتی تھیں ان کی اولادیں بنگلوں میں مقیم ہیں اور چھوٹی سوچ والے اپنے بنگلے نیلام کر رہے ہیں۔
میں یہ نہیں کہتا کہ بیٹیوں پر ظلم ہو رہا ہو تو ہونے دو بلکہ میرا کہنا ہے کہ اس میں وہ صلاحیت پیدا کرو کہ وہ غموں کی جھونپڑی کو خوشیوں کے محل میں تبدیل کرنے والی ہوجائے۔
اور میں یہ نہیں کہتا کہ بگڑتے ماحول کے لیے بیٹیاں ہی ذمہ دار ہے بیٹے بھی لاپرواہ ہوگئے ہیں ان پر بھی لگام کسا جانا چاہیے اور میں یہاں خلاصہ کرتا چلوں کہ 1950 سے لیکر 1965 تک کے جو والدین آج حیات ہے وہ اپنے خاندان والوں کو دیکھبکر پریشان ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس دنیا کی نہیں سو وہ چیز ہے پھر بھی یہ مطمئن نہیں تو ایسے وقت میں وہ راتوں کو بستر پر پڑے پڑے یہ شعر کے مطابق گھروں میں سکون تلاش کرنے لگتے ہیں اور گھر کو گھر بنانے کی فکر کرتے ہیں گھر سے وحشت کو ختم کرنے کے بہانے تلاش کرتے ہیں جو حافظ ابراہیم محمودی صاحب نے کہا 
*بنا رکھی ہیں دیواروں پہ تصویریں پرندوں کی*
*وگرنہ ہم نے اپنے گھر کی ویرانی سے مر جائیں*

اور اللہ میاں سے یہ دعا بھی کرتے ہیں کہ 
*مرے خدا مجھے اتنا تو معتبر کردے*
*میں جس مکاں میں رہتا ہوں اس کو گھر کردے*
خان گوہر نایاب کی تصویر پر خود وہ کہتی ہیں کہ
*صحرا کو بہت ناز ہے ویرانی پہ اپنی*
*واقف نہیں شاید مرے اجڑے ہوئے گھر سے*
اس کے برخلاف گوہر کے بھائی جان عبدالرازق حسین کہتے ہیں کہ

*ایک ویرانہ جہاں عمر گزاری میں نے*

*تیری تصویر لگادی ہے تو گھر لگتا ہے*
یہ زندہ دلی میں مثال ہے واہ بہت خوب خوش رہنے کے لیے بہانہ چاہیے

فوزیہ انجم باجی کا یہ شعر کہ

*کیا جانیں سفر خیر سے گزرے کہ نہ گزرے*
*تم گھر کا پتہ بھی مرے سامان میں رکھنا*
سید نسیم الدین وفا سر نے کہہ 


*گھر کبھی اجڑا نہیں ھے گھر کا نقشہ ھے گواہ* 
*ہم گئے تو آکے کوئی دوسرا رہ جائے گا*
اپنے گھر کو صرائے سے تعبیر کیا بہت خوب سر 
شیخ نعیم صاحب خاموش مزاج شخص ہے وہ کہتے ہیں 
*میں کسی اور ہی عالم کا مکیں ہوں پیارے*
*میرے جنگل کی طرح گھر بھی ہے سنسان میرا*

فریسہ باجی آپ کی نگاہ میں کونسی چیز ہے وہ بتا دیجئے
*حسن کو بھی کہاں نصیب جگرؔ* 
*وہ جو اک شے مری نگاہ میں ہے*

فرحت باجی بہت خوب شعر کہا 

*کھلا مکاں ہے ہر اک زندگی آزر*
*ہوا کے ساتھ دریچوں سے خواب آتے ہیں*
فھیم باجی کیا بات ہے آج کل پریشان حال لوگوں کی زبان یہی ہوگئی ہے وہ گھر نہیں جانا چاہتے مگر الحمدللہ آپ ان میں سے نہیں تابش کی یاد آپ کو جلد سے جلد گھر لے آتی ہے وہ کہتے ہیں نا
اصل سے سود پیارا
*سب کچھ تو ہے کیا ڈھونڈتی رہتی ہےنگاہیں*
*کیابات ہےمیں وقت پہ گھر کیوں نہیں جاتا*
درجہ بالا شعر اشرف سر نے بھی ارسال کیا ہے اور یہ شعر ان پر سجتا بھی ہے میں نے دیکھا دیر رات تک وہ گھر نہیں جاتے۔

ہائے اللہ کیا کہہ ڈالا سر یہ بات تو ہونی ہی ہے اچھے لوگ جب زندگی سے چلے جاتے ہیں تو ویرانیاں پیر پسارنے لگتی ہے
*وصل میں تیرے خرابے بھی لگیں گھر کی طرح*
*اور تیرے ہجر میں بستی بھی ویرانہ ہمیں*
نقوی شاذ زہرا صاحبہ کہتی ہے کہ 
*میرے وجود کے اندر ہے اک قدیم مکان*
*جہاں سے میں یہ اداسی ادھار لیتی ہوں*
سیدہ ھما غضنفر جاوید صاحبہ کہتی ہیں

*اپنے گھر کو واپس جاؤ رو رو کر سمجھاتا ہے*
*جہاں بھی جاؤں میرا سایہ پیچھے پیچھے آتا ہے*
اشرف سر آپ کی خواہشات کو قابو میں رکھو اور دل کی بات پر عمل کرو
*خواہشیں ہیں گھر سے باہر دور جانے کی بہت*
*شوق لیکن دل میں واپس لوٹ کر آنے کا تھا*
شیخ نسرین رسول صاحبہ دنیش نائیڈو کا شعر کہہ رہی ہے کہ
*ڈرا رہے ہیں یہ منظر بھی اب تو گھر کے مجھے*

*دکھائی خواب دئیے رات بھر کھنڈر کے مجھے*
کچھ نہیں ہوتا محترمہ سنا ہے جو خوابوں میں کھنڈر دیکھتے ہیں وہ محلوں میں رہنے والے ہوتے ہیں اللہ بری تعبیر سے محفوظ رکھے 
اسما صاحبہ نے بہت خوب کہا کہ
*مت پُوچھیے طوائفِ لوح و قلم کا حال*
*بازار سے اُٹھی سرِ دربار گر پڑی*

*دیمک نے گھر کو چاٹ کے وہ حال کر دیا*
*در کو سنبھالا ہم نے تو دیوار گر پڑی*
انصاری شکیب الحسن سر اللہ آپ کی دعا جلد از جلد قبول کرے

*میرے  ویران دریچوں میں بھی خوشبو جاگے* 
*وہ  مرے  گھر  کے  در  و   بام  سجانے  آئے*
*اسی کوچے میں کئی  اس  کے  شناسا بھی تو ہیں*
*وہ    کسی     اور   سے   ملنے  کے  بہانے آئے*

🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹

*انصاری شکیب الحسن سر*


مدتوں  بعد   میں  آیا    ہوں  پرانے  گھر  میں 
خود   کو   جی   بھر  کر  رلاؤں  گا چلا جاؤں گا
اپنی    دہلیز   پہ    کچھ   دیر    پڑا   رہنے   دو 
جیسے    ہی  ہوش  میں  آؤں گا چلا جاؤں  گا
*محمد اشرف سر*
ابھی زندہ ہے ماں میری مجھے کچھ بھی نہیں ہوگا
میں گھر سے جب نکلتا ہوں دعا بھی ساتھ چلتی ہےل

🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁
*اسما صاحبہ*

اِن بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز

کچّا تیرا مکان ہے کُچّھ تو خیال کر

🍂🍂 *انعام سوم*🍂🍂
*ھما غضنفر جاوید صاحبہ*
 
جو ہجرت کی تو دل اپنا پرانے گھر میں چھوڑ آئے
سو اب اچھے سے اچھا بھی ہو گھر اچھا نہیں لگتا
🌸 *میرے پسندیدہ اشعار* 🌸
*فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ*

 اب تواس راہ سےوہ شخص گزرتا بھی نہیں 
اب کس امید پہ دروازے سے جھانکے کوئی
کوئی آہٹ کوئ آواز کوئی چاپ نہیں 
دل کئ گلیاں بڑی سنسان ہے آئے کوئی

*نقوی شاذ زہرا صاحبہ*
پیوند کی طرح نظر آتا ہے بد نما
پختہ مکان کچے گھروں کے ہجوم میں۔۔

*اللہ حافظ* 

🧔🏻🧔🏻 *خان محمد یاسر* 🧔🏻🧔🏻

Tuesday, February 23, 2021

انتظار

🌹🍁۲۱ فروری بروز اتوار کو تصویر پر شعر کا مقابلہ منعقد کیا گیا تھا جس میں امید سے دگنا اراکین بزم محفل مشاعرہ نے شرکت کی اور مقابلے کو کامیاب بنایا ویسے تو تمام ترسیلات نہایت عمدہ تھیں مگر کچھ اشعار نے میرے دل کو چھو لیا جس کی وجہ سے میں نے انھیں اعزازی اشعار میں جگہ دی  🍂🌸

👌👌 *اعزازی اشعار* 👌👌
*ندی کنارہ بہاروں کی رت حسیں منظر*
*مرے خیال کی کھڑکی  میں سب سمٹ آئے* 

علیم اسرار
*ناندیڑ*

*جستجو کھوئے ہُوؤں کی عُمر بھر کرتے رہے*
*چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے*

*وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا،اس شام بھی*
*انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر،کرتے رہے*

پروین شاکر
اسماء صاحبہ
*اورنگ آباد* 

*ظاہر کی آنکھ سے نہ تماشا کرے کوئی* 
*ہو دیکھنا تو دیدۂ دل وا کرے کوئی*
خواجہ کوثر باجی صاحبہ 
*اورنگ آباد* 

*ایک منظر ہے کہ آنکھوں سے سرکتا ہی نہیں*

*ایک ساعت ہے کہ ساری عمر پر طاری ہوئی*

*آفتاب حسین*
نسرین شیخ رسول 
*اورنگ آباد*

*مجھے غرور رہتا ہے تیری آشنائی کا*
*مگر ساتھ غم بھی ہے تیری جدائی کا*

*بھیڑ میں اکیلے پن کا احساس ہوتا ہے*
*تیرے بن یہ حال ہے میری تنہائی کا*
محمد اشرف سر 
*اورنگ آباد*
*عجب موڑپرٹہراہےقافلہ دل کا........!!*
*سکون ڈھونڈنےنکلےتھے وحشتیں بڑھ گئیں*
      امجد اسلام امجد
آخری شعر ہے فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ  کیا کہنے عبدالستار سر آپ کے بارے میں صحیح کہتے ہیں کہ اب وہ کیا کہتے وہ ان ہی سے پوچھنا 

🌹🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹🌹

*کوئی دل کش نظارہ ہو کوئی دلچسپ منظر ہو*
*طبیعت خود بہل جاتی ہے بہلائی نہیں جاتی*

شکیل بدایونی
یہ شعر پہلے قاضی فوزیہ انجم باجی نے پھر *نسرین شیخ رسول* نے بھی ارسال کیا ہے

*ساتھ اس کے کوئی منظر کوئی پس منظر نہ ہو*
*اس طرح میں چاہتا ہوں اس کو تنہا دیکھنا*

انور مسعود
قاضی فوزیہ انجم صاحبہ 
*اورنگ آباد*

*انتظار یار میں زندہ ہیں خدایا ورنہ*
*کون جیتا ہے تیری دنیا میں تماشا بنا کر*
نامعلوم
انصاری شکیب الحسن سر 
*اورنگ آباد* 
🍁🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁🍁
اس عہد بد لحاظ میں ہم سے گداز قلب
زندہ ہی رہ گئے تو بڑا کام کر گئے 

عرفان ستار
فریسہ جبین صاحبہ 
*اورنگ آباد* 

*کس روز نظر آئے گا تعبیر کا جگنو*
*کب تک میں تِرے خواب کو آنکھوں میں سنبھالوں*

افتخارراغب
عبدالرازق حسین صاحب
*اورنگ آباد*
 
*یہاں تنہا کھڑا میں سوچتا ہوں*
*یہ خِطّہ حسیں ہے یا تم حسیں ہو*
*دست قدرت کی پختہ کاری کا*
*یہ خطہ امیں ہے یا تم امیں ہو*
عبدالستار
*ناندیڑ*
عبدالستار خطہ حسین ہوا تو وہ آپ کی وجہ سے کیونکہ کہاوت ہے نا کہ محبوب کی گلی کی ہر چیز اچھی لگتی ہے اور آپ کی بات ہی کچھ اور ہے

🍂🍂🍂 *انعام سوم*🍂🍂🍂

*آئے ہیں میرے گاؤں تو تحفہ کرؤ قبول* 
*آنکھوں میں اپنی گاؤں کا منظر سمیٹ لو* 

ن۔م
سید نسیم الدین وفا سر 
*اورنگ آباد*
 
*روش روش پہ چمن کے بجھے بجھے منظر*
*یہ کہہ رہے ہیں یہاں سے بہار گزری ہے..*
شوکت اعظمی
نقوی شاذ زہرہ صاحبہ 
*اورنگ آباد* 
*جسے صیاد نے کچھ گل نے کچھ بلبل نے کچھ سمجھا* 
*چمن   میں   کتنی   معنی   خیز تھی  اک  خامشی میری*
جگر مرادآبادی


*روش روش انھیں ڈھونڈا چمن چمن دیکھا*
*چھپے رہے وہ نگاہوں کی ہرخوشی لے کر*
اختر جہاں انجم

حافظ ابراہیم محمودی صاحب *جنتور*

*آج پھر نیند کو آنکھوں سے بچھڑتے دیکھا*
*آج یاد  پھر کوئی چوٹ پرانی آئی*
اقبال اشہر
گوہر نایاب صاحبہ 
*اورنگ آباد* 

🌸🌸🌸پسندیدہ اشعار🌸🌸🌸
*ڈھلتاسورج'شام کامنظر'ندی کنارے*
*ہائےوہ دکھ'ہائےوہ یادیں' ہائےخسارے*
       *وصی شاہ*
فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ 
*ناندیڑ* 

*چند کلیاں نشاط کی چن کر*
*مدتوں محو یاس رہتا ہوں*

*تیرا ملنا خوشی کی بات سہی*
*تجھ سے مل کر اداس رہتا ہوں*
اسماء صاحبہ 
*اورنگ آباد* 

*لب دریا سہانی شام باہم پیار کی باتیں*
*نگاہ شوق میں اب تک وہ منظر رقص کرتا ہے*
ادیب مالیگانوی
عبداللہ خان 
*ممبئی*

ویسے آج بھی ہمیں کسی نہ کسی کا انتظار ہے وہ کس کا ہے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں سب نے اپنی پسند کے اشعار کہہ کر اپنا کام مکمل کردیا اور ہاں ضروری نہیں جو کہا گیا وہ ان پر ہو مگر کچھ کو تو اس شعر سے کچھ مناسبت تو ہوگی۔
اتنا حیسن یہ منظر میں نے آج تک نہیں دیکھا مگر علیم اسرار نے کہا اپنے شعر میں کہا ہے کہ  کینوس پر ہے تو پھر ہے 
دپتی مشرا کی غزل پر نتیجہ کا اختیام کرتا ہوکہ 

وہ نہیں میرا مگر اس سے محبت ہے تو ہے 

یہ اگر رسموں رواجوں سے بغاوت ہے تو ہے 

سچ کو میں نے سچ کہا جب کہہ دیا تو کہہ دیا 

اب زمانے کی نظر میں یہ حماقت ہے تو ہے 

کب کہا میں نے کہ وہ مل جائے مجھ کو میں اسے 

غیر نا ہو جائے وہ بس اتنی حسرت ہے تو ہے 

جل گیا پروانہ گر تو کیا خطا ہے شمع کی 

رات بھر جلنا جلانا اس کی قسمت ہے تو ہے 

دوست بن کر دشمنوں سا وہ ستاتا ہے مجھے 

پھر بھی اس ظالم پہ مرنا اپنی فطرت ہے تو ہے 

دور تھے اور دور ہیں ہر دم زمین و آسماں 

دوریوں کے بعد بھی دونوں میں قربت ہے تو ہے 
*دپتی مشرا*

🍂🍂 *خان محمد یاسر* 🍂🍂

Monday, February 1, 2021

تصویر

ایک مرتبہ میں گھر میں اکیلا تھا اور بہت اکتایا ہوا محسوس کررہا تھا کوئی کھوئی ہوئی چیز نہیں مل رہی تھی دادی کے ہاتھوں سلائی کی ہوئی ایک تھیلی ملی اس میں والدہ نے پرانے البم رکھ دیئے تھے جیسے ہی وہ البم میرے ہاتھ لگامانو میرا کھویا ہوا خزانہ مل گیا میں ماضی کی یادوں میں کھو گیا پھر میرے ذہن میں خیال آیا کیوں نہ محفل والوں کو بھی ماضی یاد کرنے کا موقع فراہم کیا جائے میں نے ایک ایسی تصویر جو سب کے دل کو چھو جائے تلاش کی اور بزم محفل مشاعرہ میں مقابلے کے موضوع کے طور پر اس تصویر کو پیش کردیا۔ اس تصویر نے دل کو جھنجھوڑ دیا اب وہ زمانہ نہیں رہا اب وہ ہستیاں نہیں رہیں جو کبھی مل کر اس طرح باتیں کیا کرتیں تھیں اب وہ دوست اور سہیلیاں نہیں رہے جو وقت ضرورت دل جوئی کرتے تھے اب سوپر فاسٹ دور ہے ادھر دوستی ہوئی اور ادھر کسی بات پر ختم بہر حال قصہ مختصر ۔۔۔۔۔۔
جب بھی کوئی پرانی تصویر نکل آتی ہے ہم ماضی میں کھو جاتے ہیں اس لیے اختر انصاری نے یہ شعر کہا تھا کہ

*یاد ماضی عذاب ہے یارب*

*چھین لے مجھ سے حافظہ میرا*
مقابلہ بہت اچھا رہا سبھی اشعار بہترین تھے لاجواب تھے مانو تصویر کا منہ توڑ جواب تھے 
ایک آخری بات کروں گا کہ بشیر بدر نے ایک دہائی قبل یہ غزل لکھ کر آج کے دور کے حال و احوال سے واقف کروا دیا تھا وہ غزل یہ ہے

ہے عجیب شہر کی زندگی نہ سفر رہا نہ قیام ہے 

کہیں کاروبار سی دوپہر کہیں بد مزاج سی شام ہے 

یونہی روز ملنے کی آرزو بڑی رکھ رکھاؤ کی گفتگو 

یہ شرافتیں نہیں بے غرض اسے آپ سے کوئی کام ہے 

کہاں اب دعاؤں کی برکتیں وہ نصیحتیں وہ ہدایتیں 

یہ مطالبوں کا خلوص ہے یہ ضرورتوں کا سلام ہے 

وہ دلوں میں آگ لگائے گا میں دلوں کی آگ بجھاؤں گا 

اسے اپنے کام سے کام ہے مجھے اپنے کام سے کام ہے 

نہ اداس ہو نہ ملال کر کسی بات کا نہ خیال کر 

کئی سال بعد ملے ہیں ہم ترے نام آج کی شام ہے 

کوئی نغمہ دھوپ کے گاؤں سا کوئی نغمہ شام کی چھاؤں سا 

ذرا ان پرندوں سے پوچھنا یہ کلام کس کا کلام ہے 
 شکیب بھائی نے سب سے پہلے اس تصویر کی تعریف کی اور میری ہمت افزائی کی میں ان کا مشکور ہوں عبدالستار سر نے ان کے اس کلام کی تائید کی میں ان کا بھی مشکور ہوں فھیم باجی اور علیم اسرار سر کا بھی میں بہت مشکور ہوں مگر اسی اثنا میں ہمارے بزم کے ساتھی سید وقار احمد سر نے ہمارا ساتھ چھوڑ دیا اور گروپ سے لیفٹ ہوگئے نہ جانے کیا وجہ ہوئی ہوگی مجھے اس بات کا بہت افسوس ہورہا ہے۔
ابھی اسکول دھیرے دھیرے شروع ہوئے جارہے ہیں اسے میں وقت نکالنا مشکل ہورہا ہے اس تعلق سے مشاورت کمیٹی سے بات کی جائے گی کہ اس طرح روز کے مقابلوں کا کیا کیا جائے۔
خیر دیکھتے ہیں اشعار کیا کہتے ہیں

🌹🌹🌹 *انعام اول* 🌹🌹🌹

*ایک لمحے میں کٹا ہے مدتوں کا فاصلہ*
*مَیں ابھی آیا ہوں تصویریں پُرانی دیکھ کر*
قاضی فوزیہ انجم صاحبہ 


*چپ چاپ سنتی رہتی ہے پہروں شب فراق*
*تصویر   یار   کو   ہے   مری   گفتگو   پسند*

حافظ ابراھیــــــــم خان محمودی صاحب 

*دل فسردہ میں پھر دھڑکنوں کا شور اٹھا*
*یہ بیٹھے بیٹھے مجھے کن دنوں کی یاد آئی*
فھیم خاتون مسرت باجی صاحبہ 

*نئے زمانوں کا کرب اوڑھے ضعیف لمحے نڈھال یادیں* 
*تمھارے خوابوں کے بند کمروں میں لوٹ آئیں تو لوٹ آنا*
عبدالرزاق 
 

*گم ہیں یادوں کے بیاباں میں بہت دیر سے ہم*
*گوشہ دل سے ذرا تم ہی صدا دو ہم کو* 

سید نسیم الدین وفا
 
*جب بھی میں ان پتوں کو دیکھوں گا وقار سر کی یاد ستائے گی*

🍁🍁🍁 *انعام دوم* 🍁🍁🍁

*بھیج دی تصویر اپنی ان کو یہ لکھ کر شکیلؔ*
*آپ کی مرضی ہے چاہے جس نظر سے دیکھیے*۔۔
 نقوی شادزہرا 
 

*اک   بہانہ   ہے   میرے   پاس   ابھی   جینے  کا* 
*ایک    تصویر    موبائل    میں  پڑی  ہے   تیری* 
انصاری شکیب الحسن سر


*کوئی پرانا خط کچھ بھولی بسری یاد*
*زخموں پر وہ لمحے مرہم ہوتے ہیں*
عبدالستار سر

🍂🍂🍂 *انعام سوم* 🍂🍂🍂

*مدتوں بعد اٹھائے تھے پرانے کاغذ*
*ساتھ میرے تری تصویر نکل آئی ہے*
مراسلہ عبداللہ خان ممبئی


*اب یادِ رفتگاں کی بھی ہمت نہیں رہی*
*یاروں نے اتنی دور بسائی ہیں بستیاں*
سیدہ ھما غضنفر 
تمام انعام یافتگان و شرکائے مقابلہ کو دل کی گہرائیوں سے بہت بہت مبارکباد
خان محمد یاسر